Sunday, 20 September 2020

ہم رشتوں کی اذیت کا سامنا کیسے کریں

۔               👈 *رشتوں میں اذیت کے حوالے سے چند سوال/جواب* 👉
(قاسم علی شاہ فیس بک پیج سے)

ہم رشتوں کی اذیت کا سامنا کیسے کریں ؟   
سوال 
 اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی رشتوں میں اذیت کا سامنا پڑتا ہے۔ہمارے بعض رشتے جو خدا نے بنائے ہوتے ہیں اور بعض وہ جنہیں ہم بڑے دھوم دھام سے خود بناتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں ان سے اذیت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا حل کیاہے اوراس حل سے کیا ثمرات مل سکتے ہیں؟
سید سرفراز احمد شاہ

 یہ اصل میں ایک معاشرتی المیہ بنا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں جو رشتے ہیں ان میں خیر کے ساتھ بعض اوقات اذیت کا پہلو بھی نکل آتا ہے ۔اس کا جواب اگر ایک لا ئن میں دیا جائے تووہ یہ ہے کہ ہمارے ہا ں برداشت ختم ہو گئی ہے ۔ہم دوسر ے شخص کوا س کی انفرادی حیثیت سے قبول نہیں کرتے ۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی اپنی الگ سوچ ،عادت اور شخصیت ہے ۔ اگر ہم اس سوچ کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا شروع کردیں تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی ۔
 اگر بغور دیکھا جائے تو ہم میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں لوگوں نے قبول کیا ہوا ہے ۔توجب لوگوں نے مجھے قبول کیا ہو اہے تومجھے بھی چاہیے کہ باوجود ان کی خامیوں کے انہیں قبول کروں۔معاشرے میں اس سوچ کو پیدا کرنے اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔
 اب وہ رشتہ جسے انسان نے بڑی دھوم دھام سے قائم کیا آج کل زیادہ تر شکایت اسی رشتے کی ہوتی ہے۔بڑی عجیب بات ہے کہ جو رشتہ ہم بڑے شوق سے بناتے ہیں اور اس کے لیے بڑے بے چین ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے چند ہی ہفتوں میں شکایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔یہ تمام معاملات خود تلقینی ((self suggestionسے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح کہ میں اپنے آپ کو خود تجویز کروں کہ اس کا حل کیا ہے تواس سے میرا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
 جو بھی مرد یا خاتون اپنے شریک حیات کی شکایت کرتے ہیں تو میں ا ن کی توجہ اس طرف دلاتا ہو ں کہ نکاح کے وقت جب مولوی صاحب نے پو چھا تھا کہ فلاں بنت فلاں آپ کو حق مہر کے ساتھ قبول ہے تو آپ نے اپنی خوشی سے تین مر تبہ ہاں کہاتھا ۔ایسا نہیں تھا کہ کسی نے آپ کی کنپٹی پر پستول رکھاتھابلکہ آپ نے بہ رضا و رغبت قبول کیا تھا۔نیز یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ نکاح خواں نے یہ نہیں کہا تھاکہ آپ کو فلاں بنت فلاں خامیوں کے بغیرقبول ہے بلکہ اس نے پوری شخصیت کے بارے میں پوچھا تھا۔
 یہ ایک پیکچ ڈیل ہے کہ میں نے ان خاتون کو تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کیا ۔اب جب میں نے ایک اپنی خوشی سے قبول کی تو اب میرے پاس کوئی جواز نہیں رہتا کہ میں کہوں اس انسان میں یہ یہ خامیاں ہیں۔ہاں ایک راستہ میرے پاس ضرور ہے اور میری بیوی کے پاس بھی ہے کہ بجائے ایک دوسرے پرتنقید کرنے کے اگر ہم آپس میں اس چیز کو واضح کردیں کہ یہ میرا خاص مزاج (idiosyncrasy)ہے ،آپ نے میرے ان ایریاز میں نہیں آناکیونکہ یہ میرے لیے انتہائی حساس ہیں،تو بڑے حد تک معاملات درست ہوجائیں گے۔
 اگر ہم اپنے لائف پارٹنر کو اپنے حساس ایریاز کے بارے میں بتا دیں اور یہ بات طے کرلیں کہ ہم ایک دوسرے کے حساس ایریاز میں قدم نہیں رکھیں گے تو مسائل تو ضرور آئیں گے لیکن معاملات آسانی سے چلتے رہیں گے ۔
سوال
  کہا جاتا ہے کہ سقراط کی بیوی بڑی سخت مزاج تھی ۔اسی طرح بڑے بڑے فقیروں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی گھروالیاں بڑی سخت مزاج تھیں۔اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
سید سرفراز احمد شاہ
 جی بالکل ایسا ہی ہے ۔جتنے بھی بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کی بیویاں سخت مزاج تھیں۔ارسطو اورشخ سعدی کی بیویاں بھی بہت سخت مزاج تھیں ۔
سوال
     ا س معاملے کا فقیری پہلو کیا ملتا ہے؟کیا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ جوتکلیف یا اذیت ہم برداشت کر رہے ہیں اس کا کوئی اجر ملے گا ؟
سید سرفراز احمد شاہ
 میں اسی لیے ان کے نام لے رہاہوں تا کہ امید بن جائے کہ تقریباً سارے اولیا ء کرام اور فقیروں کی بیویاں سخت تھیں اور ان کی بیویوں کو کر یڈٹ دینا چاہیے کہ اگر وہ اتنی سخت نہ ہوتیں تو وہ شخص اللہ کی پناہ میں آکراتنی خصوع و خشوع سے اسے نہ پکارتا ۔
 غالبا ً ارسطو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کو ئی علمی بحث شروع ہو جاتی تو ارسطو کو وقت گزرنے کااحساس نہیں ہو تا تھا ۔ بعض اوقات وہ دوتین دن اسی علمی بحث میں الجھے رہتے اورجب واپس گھرجاتے توان کی بیگم سختی سے پیش آتی۔ایک دفعہ ارسطو دو تین دن بعد گھر لوٹے تو ان کے ساتھ ان کا ایک شاگرد بھی تھا ۔ان کی بیوی جو کہ فرش دھو رہی تھی وہ ارسطو پر گرجنے لگی ۔ ارسطو مسکراتے رہے ۔ ان کی بیوی کومزید غصہ آیا اور انہوں نے ان پر پانی کی بالٹی انڈیل دی۔ شاگرد بولا: استاد محترم !یہ کیا؟اسطونے جواب دیا:جو بادل گرجے تھے ان کا بر سنا ضروری تھا ۔
  قریبی رشتوں کی تکلیف یا اذیت دراصل اللہ کی طرف لو لگانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے جو انسان کو اللہ کی طرف پہنچانے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

صبر اور برداشت ‏ ‏ ‎

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک مزے دار  ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔ ’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘ یہ کہہ کہ ...