Saturday, 12 December 2020

صبر اور برداشت ‏ ‏ ‎

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک مزے دار  ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔


’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘
یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔
چند لمحوں کے لیے کلا س میں خاموشی چھاگئی ،ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بے تابی سے دیکھ رہا تھااور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے لیے خود کو روکنا مشکل ہورہا تھا۔ دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا۔پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جب کہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر رہے تھے۔استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اور پڑھانا شروع کردیا۔

اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا۔
کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔ کافی جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی میں کامیابی کے کئی زینے طے کر چکے ہیں اور ان کا شمار کامیاب افراد میں ہوتا ہے۔ پروفیسر والٹر نے اپنی کلاس کے باقی طلبہ کا بھی جائزہ لیا،معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ایک عام سی زندگی گزار رہی تھی، جب کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے، جنھیں سخت معاشی اور معاشرتی حالات کا سامنا تھا۔
 
اس تمام تر کاوش اور تحقیق کا نتیجہ پروفیسر والٹر نے ایک جملے میں نکالا اور وہ یہ تھا۔
’’جو انسان دس منٹ تک صبر نہیں کرسکتا، وہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘
 
اس تحقیق کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑ گیا، کیوں کہ پروفیسر والٹر نے بچوں کو جو ٹافی دی تھی، اس کا نام ’’مارش میلو‘‘تھا. یہ فوم کی طرح نرم تھی۔
اس تھیور ی کے مطابق دنیا کے کامیاب ترین افراد میں اور بہت ساری خوبیوں کے ایک ساتھ ایک خوبی ’’صبر‘‘ کی بھی پائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ خوبی انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے، جس کی بدولت انسان سخت حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا اور یوں وہ ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتا ہے۔

Thursday, 10 December 2020

ﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮﻥ؟؟

6 ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺳﺮ !... 
ﺍﯾﮏ ﮐﭗ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﺎ؟
ﻣﯿﻨﺠﺮ!
ﮨﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ،
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ، ﺩﮮ ﺩﻭ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﭘﮑﻨﮏ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺗﮭﯽ، ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ، ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺭﻭﮐﺎ ﮔﯿﺎ، ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﻮ ﺷﺎﻧﺖ ﮐﯿﺎ ...!
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻮﻻ .. "
ﺑﯿﭩﯽ !... 
#ﮨﻢ_ﺑﭽﮯ_ﮐﮯ_ﺩﻭﺩﮪ_ﮐﮯ_ﭘﯿﺴﮯ_ﻧﮩﯿﮟ_ﻟﯿﺘﮯ ...

ﺍﮔﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﮯ لئے ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺟﺎﺅ، ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ!
ﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮﻥ؟ ...
ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﻭﺍﻻ ﯾﺎ ﭨﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻻ ؟


_ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ لئے
_ﭘﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺖ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ

_ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭘﯿﺴﮧ ﮐﻤﺎ ﮐﺮ ؟؟
_ﻧﮧ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺐ ﮨﮯ ، ﻧﺎ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ..

Saturday, 10 October 2020

Some Words That Can't be Used But, ‏She can. (اِیک عورت کی فریاد ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت)

میرا نام “ش “ ہے ۔میں لاہور کے علاقہ شاہدرہ کی رہائشی ہوں۔ میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہویٔ کیونکہ ہمارے خاندان کا رسم ہے کہ خاندان سے باہر کرنا رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ 

عمر کے 35 ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے  لیکن مجال ہے کہ میرے والدین نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔
میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح، لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہوں۔
 میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔
یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کےساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم۔
کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا۔ میرے درد کو  مسجد  کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔۔۔۔

اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن! رات کے پچھلے جب ابا حضور اماں کے سینے پر ہاتھ رکھ سورہے ہوتے ہیں بھائی بھابی اپنے کمرے میں انجوائے کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں جانتی ہوں۔

اے حاکمِ وقت!  تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفھوم یہ تھا۔
(اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے۔ 

اے حاکمِ وقت، 
اے میرے ابا حضور،
 اے میرے ملک کے مفتی اعظم،
 اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب،
اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اہنا لہو تلاش کروں ؟
کون میرے درد کو سمجھے گا ؟ 
میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا۔

اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا۔ 
اے لوگو مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند۔۔
اللہ پاک نوالے بھی منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟
یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئ اوروں کےلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔اللّٰہ پاک بچاٸے۔۔۔۔۔

تو یہ ہے ہمارے معاشرے کے فریاد، جو جہالت کے وجہ سے ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔
اے ہمارے رب! ھمیں ان جہالت سے دور فرما،  
ہمیں عمل کے توفیق عطا فرما ہماری بہنووں کی خقوق پر۔ 

Friday, 2 October 2020

جس خاتون نے بھی یہ تحریر لکھی ہے کمال لکھا ہے۔اسے ضرور پڑھیں

وہ لکھتی ہے 
مجھے اچھا لگتا ہے مرد سے مقابلہ نہ کرنا اور اس سے ایک درجہ کمزور رہنا۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب کہیں باہر جاتے ہوئے وہ مجھ سے کہتا ہے "رکو! میں تمہیں لے جاتا ہوں یا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں"۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھ سے ایک قدم آگے چلتا ہے۔ غیر محفوظ اور خطرناک راستے پر اسکے پیچھے پیچھے اسکے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے اس نے میرے خیال سے قدرے ہموار راستے کا انتخاب کیا۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب گہرائی سے اوپر چڑھتے اور اونچائی سے ڈھلان کی طرف جاتے ہوئے وہ مڑ مڑ کر مجھے چڑھنے اور اترنے میں مدد دینے کے بار بار اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب کسی سفر پر جاتے اور واپس آتے ہوئے سامان کا سارا بوجھ وہ اپنے دونوں کاندھوں اور سر پر بنا درخواست کیے خود ہی بڑھ کر اٹھا لیتا ہے۔ اور اکثر وزنی چیزوں کو دوسری جگہ منتقل کرتے وقت اسکا یہ کہنا کہ "تم چھوڑ دو یہ میرا کام ہے"۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ میری وجہ سے شدید موسم میں سواری کا انتظار کرنے کے لیے نسبتاً سایہ دار اور محفوظ مقام کا انتخاب کرتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے ضرورت کی ہر چیز گھر پر ہی مہیا کر دیتا ہے تاکہ مجھے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ باہر جانے کی دقت نہ اٹھانی پڑے اور لوگوں کے نامناسب رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
    مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب رات کی خنکی میں میرے ساتھ آسمان پر تارے گنتے ہوئے وہ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کے ڈر سے اپنا کوٹ اتار کر میرے شانوں پر ڈال دیتا ہے۔
   مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے میرے سارے غم آنسوؤں میں بہانے کے لیے اپنا مظبوط کاندھا پیش کرتا ہے اور ہر قدم پر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ بدترین حالات میں مجھے اپنی متاعِ حیات مان کر تحفظ دینے کے لیے میرے آگے ڈھال کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے "ڈرو مت میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا"۔
   مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے غیر نظروں سے محفوظ رہنے کے لئے نصیحت کرتا ہے اور اپنا حق جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ "تم صرف میری ہو"۔
لیکن افسوس ہم سے اکثر لڑکیاں ان تمام خوشگوار احساسات کو محض مرد سے برابری کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے کھو دیتی ہیں۔
   شاید سفید گھوڑے پر سوار شہزادوں نے آنا اسی لئے چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہم نے خود کو مصنوعات کی طرح انتخاب کے لیے بازاروں میں پیش کر دیا ہے۔
پھر۔۔۔۔۔۔۔
''جب مرد یہ مان لیتا ہے کہ عورت اس سے کم نہیں تب وہ اسکی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا چھوڑ دیتا ہے۔ تب ایسے خوبصورت لمحات ایک ایک کر کے زندگی سے نفی ہوتے چلے جاتے ہیں، اور پھر زندگی بے رنگ اور بدمزہ ہو کر اپنا توازن کھو دیتی ہ''*.
مقابلہ بازی کی اس دوڑ سے نکل کر اپنی زندگی کے ایسے لطیف لمحات کا اثاثہ محفوظ کر لیجیے۔۔🤔
🌹🌹🌹✍🏿🌹🌹

Thursday, 24 September 2020

سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. 

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. 

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. 

پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا. 

نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. 

وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. 

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

عارف انیس

(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

Monday, 21 September 2020

لاہور: ایک رات میں مسجد کی تعمیر کا دلچسپ واقعہ

لاہور کے شاہ عالم چوک میں ایک ایسی مسجد واقع ہے جسے ایک رات میں تعمیر کیا گیا تھا- اس مسجد کی اتنے قلیل وقت میں تعمیر کی وجہ اور واقعہ بھی انتہائی دلچسپ اور ایمان افروز ہے- 

تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے دور میں اس مقام سے ایک مسافر سے گزر ہوا اور اس نے یہاں نماز ادا کی جبکہ یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثریت کا حامل تھا- ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی- 

معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور وہاں ہندوؤں کا مؤقف تھا کہ اس جگہ پر مندر تعمیر ہوگا جبکہ مسلمان یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے- اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل نے انہیں تجویز دی کہ اگر وہ یہاں صبح فجر سے پہلے مسجد تعمیر کرلیتے ہیں تو کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہوجائے گا- مسلمانوں کی جانب سے اس کیس کی پیروی قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کر رہے تھے-                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        
یہ سننا تھا کہ مسلمانوں نے گاماں پہلوان کی قیادت میں راتوں رات مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور جس مسلمان کے پاس جو سامان تھا اس نے وہ مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کردیا۔ یہاں تک کہ خواتین رات بھر اپنے سروں پر پانی رکھ کر لاتی رہیں تاکہ مسجد کی تعمیر ممکن ہوسکے- اور راتوں رات یہ مسجد تعمیر کردی گئی فجر کی نماز سے پہلے 

دوسری جانب مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد عدالت نے بھی مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ 

یہ مسجد 1917 میں تعمیر کی گئی اور اس کا نام “مسجد شب بھر“ رکھا گیا- یہ مسجد 3 مرلے کے رقبے پر تعمیر ہے-

علامہ اقبال کو جب تیسرے روز اس مسجد کی تعمیر کا پتہ چلا تو آپ یہاں تشریف لائے اور بہت خوش ہوئے اور یہی وہ موقع تھا جب انہوں نے یہ مشہور شعر کہا :-

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا !!

غازی عامر عبدالرحمن چیمہ شہید ‏

کہا جاتا ہے غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں پر تھا کیونکہ لوگ اتنے بے تاب تھے اس جنازہ کو کندھا دینے کے لئے
اور قافلے در قافلے اس جنازہ میں شرکت کے لئے آرہے تھے حالانکہ ان کا اس میت سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا
آخر یہ مسلمان کون تھا 
کیا آپ میں سے کوئی جانتا ہے

غازی عامر عبدالرحمن چیمہ رحمۃ اللہ علیہ کون تھے ؟
عامر چیمہ 4دسمبر 1977 کی صبح اپنے ننھیال حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام عامر جبکہ والد نے عبد الرحمٰن تجویزکیا۔ چنانچہ دونوں ناموں کو ملا کرعامرعبدالرحمٰن رکھ دیا گیا۔ لیکن مختصر نام عامر مشہور ہوا۔
عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ان کی تین بہنیں ہیں ۔
آپ نے 1993ء میں جامع ہائی اسکول ڈھوک کشمیریاں راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ 1996 ء میں ایف جی سر سید کالج مال روڈ راوالپنڈی سے ایف ایس سی کی۔ نیشنل کالج آف انجینرٔنگ فیصل آباد سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینرٔنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 
کچھ عرصہ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں لیکچرار رہے۔رائے ونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل اور الکریم ٹیکسٹائل ملز کراچی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 
نومبر 2004ء میں جرمین روانہ ہوئے اور جرمنی کے شہر مونس گلاڈباخ میں واقع اوخشو لے فیڈر یا ئن یوینورسٹی میں ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوزنگ منیجمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ تین سمسٹرز مکمل کر لیے تھے۔ اب ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھااور جولائی 2006 ء میں تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹنا تھا۔
مذہبی اور تاریخی کتب مطالعہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب وہ یورپ کے توبہ شکن اور کافر اداماحول میں گئے تو تب بھی اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اور نہ ہی اپنی کردار پے کوئی حرف آنے دیا۔
30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنز پوسٹن نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں 12 نہایت توہین آمیز اور نازیبا کارٹون شائع کیے۔ پھر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت جنوری 2006ء میں 22 ممالک کے 75 اخبارات و رسائل نے ان کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں ۔ہو ہی نہیں سکتا ،یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے ،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے ۔جسے غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔
عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی نوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔
ان کارٹونوں کی اشاعت سے مشتعل ہو کر جرمنی میں مقیم اس پاکستانی طالب علم عامر عبدالرحمن چیمہ نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کیا۔

اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین نے انہیں سخت بے قرار اور بے چین کر دیا تھا ۔ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی ۔وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے ۔عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپا یا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ۔اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا ۔عامر چیمہ نے مزید وار کر نے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں وہ نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہو گیا۔
غازی عامر عبدالرحمن چیمہ گرفتار ہوئے۔ جرمن پولیس اور مختلف حکومتی ایجنسیوں نے برلن جیل میں 44 دن تک عامر چیمہ کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر تشدد کیا۔
ایک موقع پر تفتیشی افسر نے عامر چیمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے کہ وہ ذہنی مریض ہے، دماغی طور پر تندرست نہیں ہے اور اس نے یہ قدم محض جذبات میں آ کر اٹھایا ہے۔ مزید براں یہ کہ اس فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے کیے پر بے حد شرمندہ اور نادم ہوں۔
شہید غازی عامر چیمہ نے نہایت تحمل سے تفتیشی آفیسر کی تمام باتیں سنیں اور پھر اچانک شیر کی طرح دھاڑا اور اس آفیسر کے منہ پر تھوک دیا اور روتے ہوئے کہا
’’میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ مجھے اپنے فعل پر بے حد فخر ہے۔ یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ایک تو کیا، ہزاروں جانیں بھی قربان۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اگر کسی بدبخت نے میرے آقا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی توہین کی تو میں اسے بھی کیفر کردار تک پہنچائوں گا۔ بحیثیت مسلمان یہ میرا فرض ہے اور میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتا رہوں گا۔‘‘
غازی عامر چیمہ کی اس بے باک اور بے خوف جسارت کے بعد جیل حکام آپے سے باہر ہو گئے اور انھوں نے عامر چیمہ پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی، اس کے پیچھے سے ہاتھ باندھے گئے۔ پلاس کے ساتھ اس کے ناخن کھینچے گئے۔ پائوں کے تلوئوں پر بید مارے گئے، گرم استری سے اس کا جسم داغا گیا، جسم کے نازک حصوں پر بے تحاشا ٹھڈے مارے گئے، ڈرل مشین کے ذریعے اس کے گھٹنوں میں سوراخ کیے گئے۔
غازی عامر چیمہ نہایت اذیت کی حالت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتا رہا۔ اسی دوران میں اس کی سانسیں اکھڑ گئیں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر ان بدبختوں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا 
صلہ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ

غازی عامر چیمہ کی شہادت 3 مئی 2006ء
کو ہوئی۔ شہید کا جسد خاکی 10 دن کی تاخیر کے بعد 13 مئی 2006ء کو صبح 9 بجے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے لاہور لایا گیا۔ بعدازاں شہید کے آبائی گائوں ساروکی (وزیرآباد) میں تدفین ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق جنازے میں 5 لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے۔

آفرین صد آفرین ،عامر بھائی ! آپ بازی لے گئے ،اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی کو قبول فرمائے ،آپ پر رحمتیں نازل کرے اور آپ کی قبر کو ہمیشہ نور سے آباد رکھے۔
 آمین ثم آمین ...

یہ کاپی پیسٹ تحریر نامعلوم لکھاری کی ہے لیکن حقیقت بیان کر رہی ہے

ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے۔ ۔

۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔

ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ  اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔

(سلیٹ) پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔

اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔

 اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔

کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔

جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔

اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔

گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔

آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔

 مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔

آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کر کے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔

روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔

آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔

ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔

آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا... 

غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...

آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..

اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں 
غریب ہوں۔

 *آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے.*

*ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.*
 
"  سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا ، توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا ۔
اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ،  توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں۔"

خود کو دوسروں سے کمپیر نا کرے

آج صبح میں جوگنگ کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے آدھا کلومیٹر دور تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے تھوڑا آہستہ دوڑ رہا ہے، مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی، میں نے سوچا اسے ہرانا چاہئے۔ تقریبا ایک کلو میٹر بعد مجھے اپنے گھر کی جانب ایک موڑ پر مڑنا تھا۔ میں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی منٹوں میں، میں دھیرے دھیرے اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔جب میں اس سے 100 فٹ دور رہ گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی جوش اور ولولے کے ساتھ میں نے تیزی سے اسے پیچھے کردیا۔ 

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ  "یس!! میں نے اسے ہرادیا"

حالانکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ریس لگی ہوئی ہے۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ اسے پیچھے کرنے کی دھن میں میں اپنے گھر کے موڑ سے کافی دور آگیا ہوں۔ پھر مجھے احساس ہواکہ میں نے اپنے اندرونی سکون کو غارت کردیا ہے، راستے کی ہریالی اور اس پر پڑنے والی سورج کی نرم شعاعوں کا مزہ بھی نہیں لے سکا۔ چڑیوں کی خوبصورت آوازوں کو سننے سے محروم رہ گیا۔میری سانس پھول رہی تھی،  اعضاء میں درد ہونے لگا، میرا فوکس میرے گھر کا راستہ تھا اب میں اس سے بہت دور آگیا تھا۔ 

تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہماری زندگی میں بھی ہم خوامخواہ Competition کرتے ہیں، اپنے co workers کے ساتھ، پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ، ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہت بھاری ہیں ، زیادہ کامیاب ہیں، یا زیادہ اہم ہیں، اور اسی چکر میں ہم اپنا سکون، اپنے اطراف کی خوبصورتی، اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے```

اس بیکار کے Competition کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔_

ہر جگہ کوئی نا کوئی آپ سے آگے ہوگا، کسی کو آپ سے اچھی جاب ملی ہوگی، کسی کو اچھی بیوی، اچھی کار، آپ سے زیادہ تعلیم، آپ سے ہینڈسم شوہر، فرمانبردار اولاد، اچھا ماحول، یا اچھا گھر وغیرہ

 یہ ایک حقیقت ہےکہ آپ خود اپنے آپ میں بہت زبردست ہیں، لیکن اس کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے compare کرنا چھوڑ دیں۔

بعض لوگ دوسروں پر بہت توجہ دینے کی وجہ سے بہت nervous اور insecure محسوس کرتے ہیں، اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر focus کیجئے، اپنی height، weight ، personality، جو کچھ بھی حاصل ہے اسی سے لطف اٹھائیں۔اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ اللہ نے آپ کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔۔۔
مقابلہ بازی یا تقابل ہمیشہ زندگی کے لطف پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے مزے کو کرکرا کر دیتے ہیں۔

تقدیر سے کوئی مقابلہ نہیں، سب کی اپنی اپنی تقدیر ہوتی ہے، تو صرف اپنے مقدر پر فوکس کیجئے۔

دوڑیئے ضرور!  مگر اپنی اندرونی خوشی اور سکون کیلئے نہ کہ دوسروں کو اپنے سے چھوٹا ثابت کرنے کے لیے، نیچا دکھانے کے لیے یا پیچھے چھوڑنے کے لئے۔۔..

Negative Minds can be converted into Positive Thinking ‎(ڈائری لکھئیے مسائل حل کیجئیے)

اصلاحِ ذات کے ماہر کہتے ہیں کہ منفی ذہنیت کو مثبت رویے میں تبدیل کرنے سے زندگی بہترین انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ 
آپ بھی وہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے ڈائری لکھنا، یعنی ایک ڈائری بنائیں اور اس پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو تفصیل سے لکھنا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے۔ ڈائری لکھنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا ہے۔ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت ترک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ پہلے رات کو سوتے وقت لکھا کرتے تھے۔ پھر اس نے صبح لکھنے کا تجربہ کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ صبح ہی ڈائری لکھنے کا بہترین وقت ہے۔ ڈائری ہر کامیاب آدمی لکھتا ہے اور ڈائری لکھیں تو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔
صبح سویرے ڈائری لکھنے سے آپ اپنی مشکلات کو اچھے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی عملی قدم اٹھانے کے بغیر ہی، کسی مشکل کے بارے میں شکایت کرنا اور اسے ہر ہفتے بلکہ ہر مہینے دہراتے رہنا، بہت ہی کٹھن ہوگا۔ یہ ڈائری ہمیں اکساتی ہے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں اور اپنی مشکلات کا حل تلاش کریں۔
ڈائری ایک سادہ کاپی نہیں رہتی جب اُس پر کچھ لکھ لیا جائے۔ یہ ایک تحریک بن جاتی ہے۔

┄┅❁امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں❁┅┄

بادشاہ کا اعلان ہوا "جس نے آج کے بعد قران کو الله کا کلام کہا یا لکھا گردن اڑا دی جائے گی"
بڑے بڑے محدثین علماء شہید کر دیئے گئے ساٹھ سال کے بوڑھے امام احمد بن حنبل امت کی رہنمائی کو بڑھے, فرمایا "جاؤ جا کر بتاؤ حاکم کو احمد کہتا ہے قرآن الله کی مخلوق نہیں الله کا کلام ہے"
دربار میں پیشی ہوئی بہت ڈرایا گیا امام کا استقلال نہ ٹوٹا..
مامون الرشید مر گیا اسکا بھائی معتصم حاکم بنا، امام کو ساٹھ کوڑوں کی سزا سنا دی گئی دن مقرر ہوا امام کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا ﮔﯿﺎ, بغداد میں سر ہی سر تھے ایک شخص شور مچاتا صفیں چیرتا پاس آﺍﯾﺎ : " احمد احمد !مجھے جانتے ہو ؟.. فرمایا نہیں.
میں ابو الحیثم ہوں بغداد کا سب سے بڑا چور احمد میں نے آج تک انکے بارہ سو کوڑے کھائے ہیں لیکن یہ مجھ سے چوریاں نہیں چھڑا سکے کہیں تم ان کے کوڑوں کے ڈر سے حق مت چھوڑ دینا.. امام میں نے اگر چوریاں چھوڑیں تو صرف میرے بچے بھوک سے تڑپیں گے لیکن اگر تم نے حق چھپایا تو امت برباد ہو جائے گی ..
امام غش کھا کہ گر پڑے ہوش آیا تو دربار میں تھے.. حبشی کوڑے برسا رہا تھا تیس کوڑے ہوئے معتصم نے کہا امام کہیئے ..؟
آپ نے فرمایا میں مر سکتا ہوں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں رتی برابر تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا......
پھر سے کوڑے برسنے لگے ..... ایک وزیر کوترس آیا :
" امام ایک مرتبہ میرے کان میں چپکے سے کہہ دیجئے قرآن کلام نہیں مخلوق ہے میں بادشاہ سے سفارش کرونگا "
امام نے فرمایا .. " تو میرے کان میں کہہ دے قرآن مخلوق نہیں الله کا کلام ہے قیامت میں رب سے میں تیری سفارش کرونگا "
۲۸ ماہ کے قریب قید و بند اور کوڑوں کی سختیاں جھیلیں۔ آخر تنگ آکر حکومت نے آپ کو رہا کردیا۔
اس آزمائش کے بعد اکیس سال تک زندہ رہے ، خلق خداکو فیض پہونچاتے رہے ، کوڑوں کی تکلیف آخر عمر تک محسوس کرتے تھے ، لیکن عبادت وریاضت میں مستقیم اور درس وتدریس میں ہمہ تن مصروف رہے ۔۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ بروز جمعہ آپ نے وصال فرمایا ..... آئمہ اربعہ کی عظمت و استقامت کو سلام
اے اللہ ہمیں ایسی زندگی گزارنے کی توفیق عطا کر جس زندگی سے تو راضی ہو جائے, ﺍﮮ الله ﮨﻤﯿﮟﺑﻬﯽ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﮯ ﺟﻨﻬﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ, اللہ عزوجل ہمیں رسول اللہ ﷺ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما, یا ذوالجلال والاکرام یاالله ! ہماری دعائیں اپنی شان وعظمت کے مطابق قبول فرما ۔ آمین ثم آمین۔

┄┅═❁ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ❁═┅┄


_چار چیزیں بدن میں *قوت* پیدا کرتی ہیں:​_
​1) گوشت کھانا​
​2) خوشبو سونگھنا​
​3) کثرت سے غسل کرنا​
​4) سوتی کپڑا پہننا​


_​چار چیزیں *نظر* کو تیز کرتی​ ​ہیں:​_
​1) خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھنا​
​2) سوتے وقت سرمہ لگانا​
​3) سبزہ زار کیطرف دیکھنا​
​4) صاف جگہ بیٹھنا​


_​چار چیزیں *عقل* کو بڑھاتی​ ​ہیں:​_
​1) فضول کلام ترک کرنا​
​2) مسواک کرنا​
​3) صالحین کی مجلس میں​ ​بیٹھنا​
​4) علماء کرام کی صحبت​ ​اختیار کرنا​


_​چار چیزیں *رزق* کو بڑھاتی ہیں:​_
​1) تہجد کی نماز پڑھنا​ 
​2) کثرت سے استغفار کرنا​
​3) کثرت سے صدقہ کرنا​
​4) کثرت سے ذکر کرنا.​

Sunday, 20 September 2020

بہلول کی حضرت جنيد بغدادی ‏سےسوالات ‏

*بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ 
کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔ 

بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ 
شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔ 

بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔ 

جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔

شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ 
بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟ 
شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟ 
کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔ 

بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔ 

بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ 

سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے،کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے...!

چھـــــوٹے چھـــــوٹے قـــــدم

ہم انسان اللّٰہ کے قریب ہونے کے لئے ہمیشہ بڑے بڑے کام کرنے کا سوچتے ہیں 

جیسے کہ میرے پاس دولت کے ڈھیر لگ جائیں گے تو میں بہت سے لوگوں کے لئے کھانے کا نظام شروع کرواؤں گا.. 
میں بہت سے لوگوں کے دکھ کم کرنے کے لئے انہیں کاروبار مہیا کروں گا، 
میں مسجد کی تعمیر کروں گا، 
میں فلاں بڑا کام کروں گا وغیرہ... 
اور ہوتا بھلا کیا ہے؟ 
بندہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے، 
کیونکہ دولت کی فراوانی کے ساتھ اس کے خرچے بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں 
اور 
وہ بڑے پیمانے پر کام شروع ہی نہیں کر پاتا... 

بڑی نیکی کرنے کی خواہش رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے..  
ضرور خواہش رکھیں، 
مگر 
اس سے زیادہ ان چیزوں کو.. 
ان نیکیوں کو کرنے کا سوچیں جن کو ہم حقیر سمجھ کر اہمیت ہی نہیں دیتے...  
کسی ایک بندے کو کھانا کھلا دیں. 
مسجد کے لئے ایک اینٹ کے پیسے دے دیں.
کسی ایک کی ضرورت پوری کر دیں.  
کسی ایک کا بوجھ ہلکا کر دیں.  
کسی ایک کے اداس چہرے پر مسکراہٹ لے آئیں.  
کسی ایک کو معاف کر دیں. 
کسی ایک کے لئے آسانی کر دیں. 
کسی ایک کو راشن دے دیں.  
کسی ایک کو کپڑے لے دیں.. 

چھوٹے چھوٹے قدم بھی آپ کو جنت تک پہنچا سکتے ہیں، اگر اللّٰہ کے لئے اٹھائے جائیں تو...

ہوشیار ہو جاؤ اے بنت حوا

بنت حوا۔۔۔۔!!

یہ مغربی تہذیب تم سے تمہاری حیاء و پاکیزگی چھیننا چاہتی ہے۔
تمہیں رب کی غلامی سے نکال غیر اللہ کی غلام بنانا چاہتی ہے۔
تمہیں تمہارے فرائض سے غافل کرنا چاہتی ہے۔
تمہیں دین کو چھوڑے دنیا میں مگن کرنا چاہتی ہے۔
تمہیں رقاصاؤں اور بد کردار عورتوں کے نقش قدم پر چلانا چاہتی ہے۔


ہوشیار ہو جاؤ اے بنت حوا۔۔۔!!

ہرگز ایسا کچھ مت ہونے دینا۔
اپنی حیاء کی حفاظت کرنا۔
صرف ایک اللہ کی غلام بنی رہنا۔
اپنے فرائض سے غافل نہ ہو جانا۔
قرآن کو تھامے رکھنا۔
دین پر ثابت قدم رہنا۔
فردوس پر ہی نظر رکھنا۔
حق پر ڈٹ جانا۔
دین کے لیے سب کچھ قربان کر دینا۔
لیکن اپنی عزت و عصمت پہ کبھی سمجھوتہ نہ کرنا۔

شیخ راغب اور انکی بیوی نجیبہ راغب (ایک عربی پوسٹ کا اردو ترجمہ)

شیخ راغب نے اپنی بیوی نجیہ کو طلاق دے دی، طلاق کے بعد انہوں نے بیوی سے کہا : تم اپنے گھر چلی جاؤ.

بیوی بولی : میں ہرگز گھر نہیں جاؤں گی، اب اس گھر سے میری لاش ہی نکلے گی

شیخ راغب بولے: میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں، اب مجھے تمہاری حاجت نہیں، چلی جاؤ میرے گھر سے

بیوی بولی : میں نہیں جاؤں گی، آپ مجھے گھر سے نہیں نکال سکتے جب تک میں عدت پوری نہ کر لوں، تب تک میرا خرچ بھی آپ کے ذمے ہے.

شیخ راغب بولے : یہ تو ڈھٹائی ہے، جسارت ہے، بے شرمی ہے

بیوی بولی : آپ اللہ سے زیادہ ادب سکھانے والے تو نہیں ہے، کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمۡ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ  اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا (الطلاق :11)

اے نبی! ( اپنی امت سے کہو کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت ( کے دنوں کے آغاز ) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ ( خود ) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالٰی کوئی نئی بات پیدا کردے ۔

شیخ راغب نے غصے میں اپنا کپڑا جھاڑا اور یہ بڑبڑاتے ہوئے گھر سے نکل گئے : اللہ کی قسم! اس عورت نے تو عاجز کر کے رکھا ہے.

بیوی بس مسکرا کر رہ گئی، کچھ بولی نہیں، اپنا حوصلہ مضبوط رکھا.

اب جان بوجھ کر بیوی نے روزانہ کا یہ معمول بنا لیا کہ کمرے میں روم فریشنر سے اسپرے کرتی، آخر میں خود بھی سجتی سنورتی، خوشبو لگاتی اور گھر کے اندر شیخ راغب کے آنے جانے کے راستے میں بیٹھ جاتی.

شیخ صاحب پانچ دن سے زیادہ صبر نہ کر سکے اور پھر انہوں نے زبان سے نہیں بلکہ عملی طور پر بیوی سے رجوع کر لیا.

ایک دن بیوی نے ناشتہ بنانے میں کچھ تاخیر کر دی، شیخ راغب نے غصے میں کہا : یہ تمہاری طرف سے میرے حق میں کوتاہی ہے. یہ ایک مومن عورت کا سلوک نہیں ہے

بیوی بولی : اپنے مومن بھائی کے کام کو ستر مرتبہ بھلائی پر محمول کرنا چاہیے. نیک گمان رکھنا انسان کی بہترین صفات میں سے ایک ہے، جو شخص لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے وہ ان کی محبت حاصل کرتا ہے.

شیخ راغب بولے : یہ سب کہہ دینے سے تمہارا جرم کم نہیں ہو جائے گا، کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں بغیر ناشتہ کیے گھر سے چلا جاؤں؟

بیوی بولی : حقیقی مومن کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کی قسمت میں جو لکھا ہے اس پر قناعت کرے اگرچہ تھوڑا ہی ہو. رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا ، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے اس کی ضرورت کے بقدر روزی دی گئی اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قناعت کی بھی توفیق دی

شیخ راغب بولے : اب تو میں ہرگز کچھ نہیں کھاؤں گا

بیوی بولی : افسوس آپ نے ان باتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا

شیخ راغب نے بیوی کی بات پر دھیان بھی نہیں دیا اور غصے میں گھر سے نکل گئے

گھر لوٹنے کے بعد بھی انہوں نے بیوی سے کوئی بات چیت نہیں کی

رات میں انہوں نے بیوی کو بستر پر تنہا چھوڑ دیا اور خود بستر کے نیچے سوتے رہے

شیخ صاحب کا یہی حال رہا یہاں تک کہ دس دن اور دس راتیں گزر گئیں

دن میں بیوی کھانا وغیرہ تیار کرتی اور سارے کام معمول کے مطابق کرتی

رات میں بیوی اپنے اوپری لباس اتار دیتی، میک اپ کرتی، خوشبو لگاتی اور بستر پر لیٹ جاتی. جان بوجھ کر شوہر سے کوئی بات چیت نہ کرتی.

گیارہویں رات پہلے تو شیخ راغب معمول کے مطابق بستر کے نیچے لیٹ گئے لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں بستر پر آ گئے

بیوی ہنسنے لگی اور بولی: آپ کیوں آئے ہیں؟

شیخ بولے: میں پلٹ کر واپس آ گیا ہوں

بیوی بولی : لوگ پلٹتے ہیں تو اوپر سے نیچے جاتے ہیں نیچے سے اوپر تو نہیں جاتے

شیخ نے مسکراتے ہوئے کہا : بستر پر جو مقناطیس ہے اس میں زمین کی قوت کشش سے زیادہ پاور ہے

پھر شیخ نے مسرت آمیز لہجے میں کہا : نجیہ! اگر دنیا کی ساری عورتیں تمہاری طرح ہو جائیں تو کوئی مرد اپنی بیوی کو کبھی طلاق نہ دے اور گھروں کے سارے مسائل ختم ہو جائیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا : جو عورت اپنے شوہر کی بدسلوکی پر صبر کرتی ہے اللہ اسے آسیہ بنت مزاحم کے جیسا اجر دیتا ہے، اے نجیہ! تم اللہ کی اطاعت کے کاموں میں میری بہترین مددگار ہو، اللہ تمہیں میری طرف سے جزائے خیر دے اور کبھی ہمیں جدا نہ کرے.

اس طرح سنجیدگی غصے پر غالب آ جاتی ہے.

اس پیغام کو نشر کر کے خانگی بیداری میں آپ بھی حصہ لیجیے

نجیہ کے اندر معاشرتی امور میں جذبات کے صحیح استعمال کا ہنر موجود تھا

کیا آپ جانتے ہیں؟

ہر عورت کے اندر ایک نجیہ ہوتی ہے

ہر وہ عورت جو اپنے رب سے مناجات کرے، اس حقیر دنیا کے بجائے جنت کے حصول کے لیے تگ و دو کرے وہ نجیہ ہے

اللہ ہم سب کو جہنم کی آگ سے نجات دے

یہ بہت دلچسپ کہانی ہے، اسے شادی شدہ مردوں اور عورتوں کو بھیجیے، اس میں دونوں فریق کے لیے عبرت ہے

 _(ایک عربی پوسٹ کا اردو ترجمہ)_

روز مرہ زندگی میں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ رب تعالی سے محبت کیسے کی جائے ؟


سوال 
روز مرہ زندگی میں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے 
ساتھ ساتھ رب تعالی سے محبت کیسے کی جائے ؟

محترم سرفراز احمد شاہ صاحب
 اس میں سب سے پہلے ایک چیز یاد رکھیں کہ رب تعالی کی محبت پیدا کرنے کے لیے وقت صرف نہیں ہو تا ،ہماری زندگی کا جو وقت والا پہلو ہے اس میں سے رب تعالی کی محبت پیدا کرنے کے لیے کو ئی وقت مقرر نہیں ہو تا ۔ہمیں اس کا میکنزم سمجھنے کی ضرورت ہے جو میں اکثر بیان کرتا ہوں ۔وہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز یا انسان کے ساتھ محبت یک لخت نہیں ہو تی ،ایک نظر میں محبت ہو جانا صرف محاورے کے طور پر ٹھیک ہے لیکن یہ پریکٹیکل نہیں ہو تا ۔سب سے پہلے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو تا ہے ۔ شکر گزاری کا جو جذبہ ہے وہ بڑھ کر پسندیدگی میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔وہ پسندیدگی بڑھ کر factuation in(جنون )میں تبدیل ہو جاتی ہے ،یہ ایک یسا مقام ہے جہاں پر سبھی لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں ،اس کومحبت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔یہ محبت نہیں ہو تی اس سے اگلی سٹیج محبت کی ہے اور اس کے بعد عشق آتا ہے۔
 ہم اکثر اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کرتے ہیں کہ اللہ پاک بڑا مہربان ہے ،وہ مجھ پر عنایات کرتا ہے لیکن شاید میرا دل میری زبان کا ساتھ نہیں دیتا ۔دل کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے اور زبان کچھ اور بیان کر تی ہے، جیسے انگریز آپ کو تعلیم دیتا ہے کہ جب رات کوسونے کے لیے لیٹیں تو تمام دن کی کار گردگی کا جائزہ لیں تو آپ کو اپنے آپ کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی ،اسی کے مطابق میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جب آپ سونے کے لیے لیٹیں تو یاد کریں کہ آج رب تعالی نے میرے اوپر کیا کیا مہربانیاں کیں ہیں تو اس سے ہمارے اندر رب تعالی کے لیے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو گا اور اگر ہم یہ عمل جاری رکھیں تو شکر گزاری سے معاملہ آگے پسندیدگی, infactuation(جنون)،محبت اور عشق تک بڑھ جاتا ہے ۔جب یہ عمل پختہ ہو جاتا ہے تو پھر ہمارا دل ،ہماری زبان اور ہمارا دماغ ایک ہی جذبہ پر مر کوز ہو ں گے کہ ہمارا رب ہم پر مہربان ہے ۔جب انسان ایک بار اس میں داخل ہو گئے جس میں دل اور زبان ایک ہے تو راستہ بڑا آسان ہو جاتا ہے ۔

اوور کـــــــوٹ ‏ ‎

 ’’یہ سبق مجھے میرے والد نے دیا تھا۔ میں دن رات ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صدق دل سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں‘‘۔

وہ رکا، رومال سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور بولا ’’میرے والد کو سردی کا مرض لاحق تھا۔ وہ گھر میں بھی اوور کوٹ پہن کر پھرتے تھے۔ میرے والد جون جولائی میں بھی دھوپ میں بیٹھتے تھے۔ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی تھی لیکن ان کی سردی کم نہیں ہوتی تھی۔ وہ گرمیوں میں بھی لحاف لے کر سوتے تھے۔ پاؤں میں ڈبل جرابیں پہنتے تھے اور صبح شام ہیٹر کے قریب بیٹھتے تھے۔ سردیاں ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی تھیں۔ وہ اکتوبر میں کپکپانا شروع کر دیتے تھے۔
ہم انھیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی شفٹ کر دیتے تھے، وہ چھ ماہ دبئی میں رہتے تھے اور چھ ماہ لاہور میں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک بیماری کے باوجود ان پر بڑا کرم کیا تھا۔ وہ ارب پتی تھے، وہ حقیقتاً مٹی کو ہاتھ لگاتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ وہ دنیا کے مشہور ترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے، لیکن اس خوفناک مرض نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ آخری عمر میں سنکی ہو گئے تھے۔ وہ روز مجھے اپنے پاس بٹھاتے، 
میری ٹھوڑی پکڑتے اور نمناک آواز میں کہتے تھے عبدالمالک مجھے موت سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں جب سوچتا ہوں، میں زمین سے چھ فٹ نیچے پڑا ہوں گا، اندر اندھیرا اور سردی ہو گی اور میرے بدن پر صرف دو چادریں ہوں گی تو میری روح تک کانپ جاتی ہے۔ عبدالمالک کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟ میں ہر روز جواب دیتا؛ ابا جی آپ حکم کریں، میں جی لڑا دوں گا۔ میرے والد بڑی لجاجت سے فرماتے؛ بیٹا تم کسی سے فتویٰ لے کر مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا۔ یہ ممکن نہ ہوا تو تم کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست ضرور کر دینا۔ میں فوراً حامی بھر لیتا تھا۔
میرا خیال تھا میں کسی نہ کسی عالم سے فتویٰ لے کر اباجی کو اوور کوٹ میں دفن کر دوں گا۔ میں ان کی قبر بھی گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا۔ ہم لوگ امیر تھے۔ میں اکثر سوچتا تھا اگر کوئی عالم تیار نہ ہوا تو میں فتویٰ خرید لوں گا۔ مجھے جتنی بھی رقم خرچ کرنا پڑی کر دوں گا لیکن میں اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔‘‘

وہ رکا، ٹھنڈی آہ بھری اور بولا؛ ’’لیکن میں فیل ہو گیا۔ میرے والد ٢٠٠٠ء میں فوت ہو گئے۔ ہم نے انھیں گرم پانی سے غسل دیا، انھیں اوور کوٹ پہنایا اور اس اوور کوٹ پر کفن لپیٹ دیا۔
مولوی صاحب نے جب اوورٹ کوٹ دیکھا تو جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے انھیں ہر قسم کا لالچ دیا، میں نے ان کی منت بھی کی لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے تنگ آ کر انھیں دھمکی دے دی، وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم نے اس کے بعد بے شمار مولویوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی نہ مانا، یہاں تک کہ میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں جب والد کی میت کے پیچھے کھڑا ہوا تو لوگوں نے جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان کی بھی منتیں کیں لیکن وہ بھی نہ مانے۔

والد کی قبر کا ایشو بھی بن گیا۔ میں قبر میں ’’انسولیشن‘‘ کرنا چاہتا تھا لیکن لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا۔ پورے شہر کا کہنا تھا قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ فرعونوں کے علاوہ آج تک کسی شخص کی قبر اندر سے پکی نہیں ہوئی، یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میں مصیبت میں پھنس گیا یہاں تک کہ میرے پاس لوگوں کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہ بچا۔ مجھے والد کا اوورکوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی توڑنی پڑی۔ میں نے بڑے دکھی دل کے ساتھ اپنے والد کو دفن کیا اور قبر پر دیر تک روتا رہا۔ میں جب بھی سوچتا تھا میں اپنے والد کی معمولی سی خواہش پوری نہیں کر سکا تو میری ہچکی بندھ جاتی تھی۔ میں اس کے بعد جب بھی والد کی قبر پر جاتا تھا۔ میں شرمندگی سے سر جھکاتا تھا اور ان سے معافی مانگتا تھا۔ یہ سلسلہ مہینہ بھر جاری رہا۔

میں ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا، میرے والد میرے خواب میں آ گئے۔ وہ سفید کفن میں ملبوس تھے۔ انھیں شدید سردی لگ رہی تھی، وہ کپکپا رہے تھے اور مجھے بلا رہے تھے۔ عبدالمالک! عبدالمالک! اٹھو اور میری بات سنو! میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا، وہ بولے؛ میرے بیٹے میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوئی۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی میں غور سے سن رہا ہوں، آپ فرمائیے۔
وہ بولے؛ بیٹا میں ارب پتی تھا، میں چیک پر خود دستخط نہیں کرتا تھا، میرے منیجر کرتے تھے۔ میں زمین جائیداد کا مالک بھی تھا اور میں تم جیسے سعادت مند بیٹوں کا باپ بھی تھا لیکن تم اور میری ساری دولت مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے۔ میں گرم کپڑوں اور گرم قبر میں دفن نہ ہو سکا۔
میں نے اس سے اندازہ لگایا انسان کی ساری دولت اور ساری آل اولاد مل کر بھی موت کے بعد اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ یہ قبر میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ یہ سب اگر مجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہیں پہنا سکے تھے تو یہ اس سے آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ چنانچہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی آپ کا ساتھ دے اور اولاد وہ ہے جو زندگی کے بعد بھی اولاد رہے۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی آپ کی بات یقیناً ٹھیک ہو گی لیکن میں یہ سمجھ نہیں سکا۔ وہ مسکرائے اور فرمایا دولت اور اولاد کو صالح بناؤ۔ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آتی رہے گی، ورنہ دوسری صورت میں یہ تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہے گی۔ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولے؛ بیٹا میں نے پوری زندگی دولت کمائی، میں اس کا ٩٩ فیصد حصہ دنیا میں چھوڑ گیا۔
یہ ٩٩ فیصد حصہ میرے بعد نااہل ثابت ہوا جب کہ میں نے اس کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لئے اسکول بنایا تھا۔ دولت کا وہ ایک فیصدحصہ میرے لئے صالح ثابت ہوا، وہ آج بھی میرے کام آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیئے تھے۔ میں نے ان تمام بچوں کو پریکٹیکل بنا دیا۔ یہ بچے دنیا دار ہیں، یہ زندگی میں مجھ سے زیادہ کامیاب ہیں۔
یہ دھڑا دھڑ پیسہ کما رہے ہیں لیکن مجھے آج ان میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہاں البتہ میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلائی تھی۔ وہ بچی ڈاکٹر بن گئی، وہ ڈاکٹر ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ مجھے ان دو دنوں کا بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ بچی اور اس کے دو دن میرے لئے صالح ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی دولت کا ایک فیصد اپنے اوپر خرچ کرو اور ٩٩ فیصد کو صالح بنا دو۔ تم مرنے کے بعد بھی خوشحال رہو گے اور تم اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ ویلفیئر پر لگا دو۔ یہ صالح ہو جائے گی اور یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک نفع پہنچاتی رہے گی۔
میرے والد اٹھے، میرا ماتھا چوما اور چلے گئے۔ میرا خواب ٹوٹ گیا۔ میں جاگ کر بیٹھ گیا‘‘

وہ رکا، لمبا سانس لیا، ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور ہنس کر بولا؛ ’’بس میرے والد نے مجھے زندگی کی ڈائریکشن دے دی۔ میں نے اولاد اور دولت کو صالح بنانا شروع کر دیا۔ میں نے اپنی دولت جمع کی، دس فیصد حصہ الگ کیا، یہ دس فیصد پراپرٹی میں لگایا۔ ایسے اثاثے بنائے جن کے کرایوں سے ہم اچھی اور پرآسائش زندگی گزار سکتے ہیں اور باقی دولت میں نے اللہ کے نام وقف کر دی۔
میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنوئیں کھدوائے اور اسکول اور ڈسپنسریاں بنانا شروع کر دیں۔ میں نے دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور موذی امراض کے شکار لوگوں کی بہبود کے لئے بھی وقف کر دیا۔ یوں میری دولت صالح ہوتی چلی گئی، میں اب اپنے بچوں کو بھی ویلفیئر کے کام پر لگا کر صالح بناتا جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ بھی ایک نہ ایک دن میری قبر کے لئے ٹھنڈک بن جائیں گے۔

وہ خاموش ہو گیا، میں نے عرض کیا؛ ’’آپ بچوں کو کیسے صالح بنا رہے ہیں؟ ‘‘ وہ مسکرایا اور بولا؛ ’’میں بچوں کو ٹریننگ دے رہا ہوں۔ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے، ہم جب تک اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے ہم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے۔ آپ انجینئر ہیں تو آپ اپنی انجینئرنگ کا ایک حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وقف کریں اور دوسرا حصہ صدقہ کر دیں۔ لوگوں کو اپنے علم اور اپنے فن کے فوائد میں شامل کر لیں آپ صالح ہو جائیں گے۔
آپ اسی طرح اگر ڈاکٹر ہیں تو آپ لوگوں کا مفت علاج کریں، یہ مفت علاج آپ کی طرف سے صدقہ ہو گا اور یہ صدقہ آپ کو صالح بنا دے گا اور آپ اگر تاجر ہیں تو آپ اپنی تجارت کو منافع خوری، ملاوٹ اور بددیانتی سے پاک کرتے جائیں۔ آپ صالح تاجر ہو جائیں گے اور اس کا آپ اور آپ کے والدین کو فائدہ ہو گا۔‘‘


وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا؛ ’’آپ کو اب تک اس پریکٹس کا کیا فائدہ ہوا؟ ‘‘ وہ مسکرایا اور بولا؛ ’’میں زندگی اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں۔ وہ اکثر اوور کوٹ پہن کر میرے خواب میں آتے ہیں، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور اونچی آواز میں کہتے ہیں ’’شاباش عبدالمالک‘‘ اور میں نہال ہو جاتا ہوں۔ میں خوش ہو جاتا ہوں‘‘۔

خـــــــونـــــــی رشـــــــتــے

کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے
کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے
مگر ایک شرط پر ،، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،
اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ،
اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،،
اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،، گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے
اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا یہاں تک کہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ،
کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ،
یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں.....

دے کر مرو

اس کا سب سے بڑا خواب ایک ہی تھا کہ اس کا چیک جب بینک میں کیش ہونے کے لیے جائے، تو اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے باؤنس ہوجائے. اس خواب کو سچا کرنے میں چار عشرے بیت گئے. 

وہ انوکھا ارب پتی تھا. 40 سال پہلے اس نے نیت کی کہ اس نے کنگلا ہو کر مرنا ہے. اپنی ساری دولت لٹانے کے لیے اس نے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا جو دنیا کے 7 مختلف ٹائم زونز میں 300 سے زائد سٹاف پر مشتمل تھا. 40 سال تک دونوں ہاتھوں سے خیرات کرنے کے بعد، چار دن قبل، 14 ستمبر 2020 کو اس کا مشن پورا ہوگیا.

چک فینی (Chuck Feeney) نے 8 ارب ڈالرز عطیات اور خیرات کی مد میں تقسیم کر دیے. پاکستانی روپوں میں یہ تقریباً 1400 ارب روپے بنتے ہیں. جب اس نے بانٹنا شروع کیا تو اسے کی کل دولت ایک ارب ڈالرز تھی، وہ بانٹتا گیا، رب بڑھاتا گیا اور وہ دولت 8 ارب ڈالرز تک جا پہنچی. 

چک فینی دنیا کا واحد ارب پتی ہے، جو اپنی مرضی سے اپنی تمام تر دولت اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا تھا. 89 سال کی عمر میں اس کا مشن پورا ہوگیا. اب اس کی کل جائیداد صرف دو ملین ڈالرز کی باقی بچی ہے.

چک امریکہ میں ڈیپریشن کے دنوں کے دوران آئرش مہاجرین کے پیدا ہوا. بعد میں کورین جنگ کے دوران اس نے ریڈیو آپریٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیں. جنگ کے بعد اسے فوجی ہونے کے ناطے سکالرشپ ملا اور وہ کارنل یونیورسٹی میں داخل ہونے والا اپنے خاندان کا پہلا فرد بن گیا. اس داخلے نے سب کچھ بدل دیا. چک نے ڈیوٹی فری اشیاء کا بزنس شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہوگیا.

چک نے دیکھا کہ بے تحاشا دولت بے ان گنت مسائل لے کر آئی. اس کے میلوں تک پھیلے گھروں پر درجنوں رولز رائس، بینٹلے، جہاز اور ہیلی کاپٹر جمع ہوگئے اور اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے بچے طرح طرح کی عیاشیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں. اب وہ بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح تام جھام کا شکار ہو چکے تھے. ساتھ ہی وہ دنیا گھوم رہا تھا اور ہر طرف اسے زندگی عسرت اور آزمائش میں نظر آرہی تھی. 1984 میں ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا اور دونوں آٹھ گھنٹے تک غور وفکر کرتے رہے. انہیں لگ رہا تھا کہ دولت کی یہ بارش ان کے خاندان کو کھا جائے گی. دونوں خدا، عیسائییت اور خیرات دینے کے فلسفہ پر یقین رکھتے تھے. دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کل دولت خیرات کردیں گے. 

چک فینی نے "گونگ وائل لونگ  Giving While Living " کے نعروں کی بنیاد ڈالی. اس کا کہنا تھا، جو بھلا کرنا ہے کر کے مرو. اس سے پہلے امیر کبیر لوگوں میں رواج تھا کہ وہ مرتے وقت ٹرسٹ بنا کر اپنے اثاثے اس کے سپرد کر دیتے تھے. چک نے اسے خود غرضی سے تعبیر کیا اور کہا اصل خیرات وہی ہے جو اپنے ہاتھ سے، اپنی زندگی میں دی جائے. مر کر کسی کا بھلا کر دیا تو وہ کس کام کا ہے. دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے. 

سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے تک پوری دنیا میں گنتی کے لوگ ہی چک فینی کا نام جانتے تھے. اس نے اپنے نام کی تختی نہیں لگوائی، پلیق نہیں بنوایا، نہ ہی اخبارات میں خبریں لگوائیں اور ٹی وی پر بلیٹن چلوائے. عام طور پر عطیات دیتے وقت ایک شرط یہ ہوتی تھی کہ اس کا نام خفیہ رکھا جائے گا. اور تو اور اس نے جس بزنس سے اربوں کمائے اس کے سارے شیئر بھی بیچ کر خیرات میں لگا دیے جس کا علم لوگوں کو دس سال بعد ہوا. اس وجہ سے اس "خیراتی دنیا کا جیمز بانڈ" کہا جاتا ہے.

چک فینی 1960 کے عشرے میں ڈیوٹی فری لگژری اشیا بیچ کر ارب پتی بنا. اس نے خود تو اپنی تمام دولت 8 ارب ڈالر تیاگ دی، مگر ساتھ ہی اس نے دنیا بھر کے امیر ترین افراد کو لعن طعن کرکے 120 ارب ڈالرز سے زیادہ رقم خیرات کروائی. آپ نے بل گیٹس اور اس کی بیوی کی 40 بلین ڈالرز سے قائم کی گئی فاؤنڈیشن یا دنیا کے امیر ترین افراد کے کلب کے رکن وارن بفے کا وہ وعدہ سنا ہوگا جس میں اس نے اپنی %99 دولت خیرات کرنے کا عہد کیا تھا. گیٹس اور بفے دونوں چک فینی کو مرشد مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے دیکھ کر ہی انہیں خیرات دینے کا حوصلہ ہواہے. 2010 میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں کے اکٹھ کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا، جس میں آدھی سے زیادہ دولت انسانیت کی فلاح کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا گیا. 

فینی نے اپنے عطیات سے امن عامہ ، صحت اور تعلیم کے لئے کام کیا. ایک ارب ڈالرز تو اس نے اپنی مادر علمی کارنل یونیورسٹی پر وار دیے. ویت نام کا صحت کا پورا نظام اس نے تبدیل کر کے رکھ دیا. اس کے مخیر پن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے. 

چک کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے. اس کے پاس جینز کے دو تین جوڑے اور دو عدد سوٹ ہیں. کسی نے اس سے پوچھا کہ وہ رولز رائس میں کیوں نہیں بیٹھتا؟ اس نے جواب دیا کہ رولز رائس میں بیٹھنے سے میں ہرگز مزید امیر محسوس نہیں کرتا، میرے لیے سکوٹر کافی ہو رہتا ہے.

ایک جگہ اس نے کہا کہ تھنگز منی کینٹ بائے (جو چیزیں پیسے سے نہیں خریدی جاسکتیں) ، سچ ہے. یہ سچ مجھے پیسے تقسیم کر کے پتہ چلا. 

چک خود سان فرانسسکو میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا ہے جو بظاہر کسی سٹوڈنٹ کی رہائش دکھتی ہے.

ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم اپنے وقت کے ولی چک فینی کے وقت میں زندہ رہ رہے ہیں. ہمارے پاس بھی کار خیر کے حوالے سے ایدھی، ادیب رضوی اور اخوت کی مثالیں ہیں. دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے رئیسوں میں بھی ایوان فیلڈ، سرے محل اور بحریہ ٹاؤن کے علاوہ چک فینی جیسوں کی کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملیں جو اپنے حصے کا دان کر کے مرنا چاہتے ہوں. لیکن اپنے حصے کا دان تو ہم سب کو کرنا چاہیے. ہم سب کے پاس مختلف نعمتیں موجود ہیں جنہیں ہم تقسیم کرسکتے ہیں. کہیں بصیرت، کہیں ہمت، کہیں حوصلہ، کہیں روپیہ بانٹ سکتے ہیں. تاہم یہ عہد نبھانے کے لیے ارب پتی ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے. 

( ساجد اقبال صدیقی)

موت کے خوف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

موت کے خوف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ؟

سید سرفراز احمد صاحب ۔
   یہ ایک فطرتی امر ہے کہ ہر انسان موت سے ڈرتا ہے ۔موت ایک بہت عجیب و غریب چیز ہے اور یہ کائنات کی ایک ایسی حقیقت ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس دنیا میں رب تعالیٰ کے منکرین بھی موجود ہیں جو کہ اس کو نہیں مانتے ہیں ۔ پیغمبر ،نبی اور رسول جواس دنیا میں تشریف لائے ان کی سچائی سے بھی لوگوں نے انکار کیا اور ان کی کتابوں کے منکرین بھی اس دنیا میں موجود ہیں لیکن موت واحد چیز ہے جس سے کو ئی شخص انکار نہیں کرتا ۔فقیر لوگ موت سے خوف زدہ نہیں ہو تے بلکہ خوشی سے اس کا انتطار کرتے ہیں کہ کب عزرائیل آئے گا ، میری روح قبض کرے گا اور میں اپنے دوست سے ملاقات کروں گا ۔جو سچی محبت رب تعالیٰ کے لیے انسان کے دل میں پیدا ہو تی ہے وہ ملاقات کی تمنا رکھتی ہے ۔انسان جس سے محبت کرتا ہے وہ اس سے ملنا چاہتاہے ،فقیر بڑے سچے دل سے رب تعالی سے محبت کرتا ہے ۔فقیر وہ ہستی ہے جس کو موت کا انتظار رہتا ہے ۔
 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔فقیر جاتا تو اپنے مقرر وقت پر ہی ہے لیکن وہ اس کا منتظر رہتا ہے ۔ موت کا خوف نکالنے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ آپ دل میں رب تعالی کی محبت پیدا کر لیں ۔رب کی طرف دھیان رہے گا اور انتظار رہے گا کہ میں کب اپنے رب سے جا کر ملوں گا ۔

ہم رشتوں کی اذیت کا سامنا کیسے کریں

۔               👈 *رشتوں میں اذیت کے حوالے سے چند سوال/جواب* 👉
(قاسم علی شاہ فیس بک پیج سے)

ہم رشتوں کی اذیت کا سامنا کیسے کریں ؟   
سوال 
 اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی رشتوں میں اذیت کا سامنا پڑتا ہے۔ہمارے بعض رشتے جو خدا نے بنائے ہوتے ہیں اور بعض وہ جنہیں ہم بڑے دھوم دھام سے خود بناتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں ان سے اذیت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا حل کیاہے اوراس حل سے کیا ثمرات مل سکتے ہیں؟
سید سرفراز احمد شاہ

 یہ اصل میں ایک معاشرتی المیہ بنا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں جو رشتے ہیں ان میں خیر کے ساتھ بعض اوقات اذیت کا پہلو بھی نکل آتا ہے ۔اس کا جواب اگر ایک لا ئن میں دیا جائے تووہ یہ ہے کہ ہمارے ہا ں برداشت ختم ہو گئی ہے ۔ہم دوسر ے شخص کوا س کی انفرادی حیثیت سے قبول نہیں کرتے ۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی اپنی الگ سوچ ،عادت اور شخصیت ہے ۔ اگر ہم اس سوچ کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا شروع کردیں تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی ۔
 اگر بغور دیکھا جائے تو ہم میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں لوگوں نے قبول کیا ہوا ہے ۔توجب لوگوں نے مجھے قبول کیا ہو اہے تومجھے بھی چاہیے کہ باوجود ان کی خامیوں کے انہیں قبول کروں۔معاشرے میں اس سوچ کو پیدا کرنے اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔
 اب وہ رشتہ جسے انسان نے بڑی دھوم دھام سے قائم کیا آج کل زیادہ تر شکایت اسی رشتے کی ہوتی ہے۔بڑی عجیب بات ہے کہ جو رشتہ ہم بڑے شوق سے بناتے ہیں اور اس کے لیے بڑے بے چین ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے چند ہی ہفتوں میں شکایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔یہ تمام معاملات خود تلقینی ((self suggestionسے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح کہ میں اپنے آپ کو خود تجویز کروں کہ اس کا حل کیا ہے تواس سے میرا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
 جو بھی مرد یا خاتون اپنے شریک حیات کی شکایت کرتے ہیں تو میں ا ن کی توجہ اس طرف دلاتا ہو ں کہ نکاح کے وقت جب مولوی صاحب نے پو چھا تھا کہ فلاں بنت فلاں آپ کو حق مہر کے ساتھ قبول ہے تو آپ نے اپنی خوشی سے تین مر تبہ ہاں کہاتھا ۔ایسا نہیں تھا کہ کسی نے آپ کی کنپٹی پر پستول رکھاتھابلکہ آپ نے بہ رضا و رغبت قبول کیا تھا۔نیز یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ نکاح خواں نے یہ نہیں کہا تھاکہ آپ کو فلاں بنت فلاں خامیوں کے بغیرقبول ہے بلکہ اس نے پوری شخصیت کے بارے میں پوچھا تھا۔
 یہ ایک پیکچ ڈیل ہے کہ میں نے ان خاتون کو تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کیا ۔اب جب میں نے ایک اپنی خوشی سے قبول کی تو اب میرے پاس کوئی جواز نہیں رہتا کہ میں کہوں اس انسان میں یہ یہ خامیاں ہیں۔ہاں ایک راستہ میرے پاس ضرور ہے اور میری بیوی کے پاس بھی ہے کہ بجائے ایک دوسرے پرتنقید کرنے کے اگر ہم آپس میں اس چیز کو واضح کردیں کہ یہ میرا خاص مزاج (idiosyncrasy)ہے ،آپ نے میرے ان ایریاز میں نہیں آناکیونکہ یہ میرے لیے انتہائی حساس ہیں،تو بڑے حد تک معاملات درست ہوجائیں گے۔
 اگر ہم اپنے لائف پارٹنر کو اپنے حساس ایریاز کے بارے میں بتا دیں اور یہ بات طے کرلیں کہ ہم ایک دوسرے کے حساس ایریاز میں قدم نہیں رکھیں گے تو مسائل تو ضرور آئیں گے لیکن معاملات آسانی سے چلتے رہیں گے ۔
سوال
  کہا جاتا ہے کہ سقراط کی بیوی بڑی سخت مزاج تھی ۔اسی طرح بڑے بڑے فقیروں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی گھروالیاں بڑی سخت مزاج تھیں۔اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
سید سرفراز احمد شاہ
 جی بالکل ایسا ہی ہے ۔جتنے بھی بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کی بیویاں سخت مزاج تھیں۔ارسطو اورشخ سعدی کی بیویاں بھی بہت سخت مزاج تھیں ۔
سوال
     ا س معاملے کا فقیری پہلو کیا ملتا ہے؟کیا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ جوتکلیف یا اذیت ہم برداشت کر رہے ہیں اس کا کوئی اجر ملے گا ؟
سید سرفراز احمد شاہ
 میں اسی لیے ان کے نام لے رہاہوں تا کہ امید بن جائے کہ تقریباً سارے اولیا ء کرام اور فقیروں کی بیویاں سخت تھیں اور ان کی بیویوں کو کر یڈٹ دینا چاہیے کہ اگر وہ اتنی سخت نہ ہوتیں تو وہ شخص اللہ کی پناہ میں آکراتنی خصوع و خشوع سے اسے نہ پکارتا ۔
 غالبا ً ارسطو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کو ئی علمی بحث شروع ہو جاتی تو ارسطو کو وقت گزرنے کااحساس نہیں ہو تا تھا ۔ بعض اوقات وہ دوتین دن اسی علمی بحث میں الجھے رہتے اورجب واپس گھرجاتے توان کی بیگم سختی سے پیش آتی۔ایک دفعہ ارسطو دو تین دن بعد گھر لوٹے تو ان کے ساتھ ان کا ایک شاگرد بھی تھا ۔ان کی بیوی جو کہ فرش دھو رہی تھی وہ ارسطو پر گرجنے لگی ۔ ارسطو مسکراتے رہے ۔ ان کی بیوی کومزید غصہ آیا اور انہوں نے ان پر پانی کی بالٹی انڈیل دی۔ شاگرد بولا: استاد محترم !یہ کیا؟اسطونے جواب دیا:جو بادل گرجے تھے ان کا بر سنا ضروری تھا ۔
  قریبی رشتوں کی تکلیف یا اذیت دراصل اللہ کی طرف لو لگانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے جو انسان کو اللہ کی طرف پہنچانے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔

ایک لڑکی قصہ لکھتی ہے کہ

میں نے گھر کی صفائی کی اسی دوران بھائی نے فون کیا کہ میں بیوی بچوں سمیت تمہاری ملاقات کیلئے آرہا ہوں.

کہتی ہے کہ میں باورچی خانہ چلی گئ ، تاکہ ان کیلئے جلدی میں کچھ تیار کرسکوں، پر گھر میں صرف دو تین آم ہی پڑے تھے،جلدی میں دو گلاس جوس تیار کرلی. 

   جب وہ آئے، تو بھائی کے ساتھ اس کی ساس بھی تھی!
جو کہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں آئی تھی،تو میں نے دو گلاس جوس ماں اور بیٹی کے سامنے رکھ دی اور پانی کا گلاس بھائی کے سامنے رکھ کر کہا کہ،مجھے معلوم ہے کہ آپ کو سیون اپ پسند ہے... بھائی نے جیسے ہی گلاس منہ سے لگایا تو سمجھ گیا کہ یہ تو پانی ہے،
اسی دوران ساس نے میرے بھائی سے کہا: بیٹا سیون اپ میرے معدے کیلئے اچھا ہے اس لئے میرا جوس تم پی لو اور سیون اپ مجھے دو! 
یہاں پر میرے اوسان خطاء ہوئے،سخت شرمندگی ہوئی کہ میری چالاکی رسوا ہوگئ، پر ﷲ میرا بھائی سلامت رکھے.

   بھائی نے اپنی ساس سے کہا:اس گلاس سے تو میں نے کافی سیون اپ پی لیا ہے، آپ کیلئے میں فریج سے بوتل لاتا ہوں، اس نے گلاس لیا اور جلدی سے باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد ہم نے گلاس ٹوٹنے کی آواز سنی! بھائی واپس آیا، ساس سے کہا کہ سیون اپ کا بوتل تو مجھ سے گر کر ٹوٹ پڑا،میں جلدی سے تمہارے لئے دکان سے ایک بوتل لے آتا ہوں؟ ساس نے سختی سے انکار کیا کہ چلو یہ میرے نصیب میں نہیں تھا.

   جب وہ رخصت ہونے لگے تو بھائی پیچھے رہا،خدا حافظ کہا مصافحہ کیلئے ہاتھ دیا، اور اسی دوران ہاتھ میں پیسے بھی تھمادیے ، اور مسکرا کر بولا، میری پیاری بہن کچن میں گرے ہوئے سیون اپ کی جگہ کو دھو ڈالنا. 
اسی طرح میرے پیارے بھائی نے میری کمزوری پر پردہ بھی ڈالا اور میرے ساتھ مدد بھی کی.
 (سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ)ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے "سورت قصص 35"

ہر دوست کہلانے والا دوست نہیں ہوا کرتا

👈  بزرگ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص سے بہت سارے لوگ دوستی کا دم بھرنے لگے تو اس کے والد نے کہا:

بیٹا ! ہر دوست کہلانے والا شخص ، دوست نہیں ہوا کر تا ؛ بڑی جانچ پڑتال کے بعد کسی کو دوست سمجھنا چاہیے ۔

پھر باپ نے ایک دُنبہ ذبح کرکے بوری میں بند کیا جس سے خون ٹپک رہا تھا ، اور بیٹے سے کہا:

یہ اپنے دوستوں کے پاس لے جاؤ ، اور اُنھیں کہو:

 مجھ سے قتل ہوگیا ہے ، میری مدد کرو !

پھر دیکھو وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔

بیٹے نے بوری اٹھائی اور رات کو ایک دوست کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔

دوست نے پوچھا خیریت ہے ؟

کہنےلگا: یار مجھ سے قتل ہوگیا ہے ، نہ  لاش ٹھکانے لگانے کی جگہ مل رہی ہے ، نہ سر چھپانے کی ؛ میری کچھ مدد کرو !

دوست نے مدد کے بجائے ٹال دیا ، کہ تُو جانے اور تیرا کام جانے ، میں تیرے ساتھ کیوں پھنسوں ۔
وہ دوسرے ، تیسرے ، چوتھے ، الغرض سب دوستوں کے پاس گیا لیکن کسی نے بھی اُسے اپنے گھر میں پناہ نہ دی ۔
وہ مایوس ہوکر والد کے پاس آیا اور کہا:

 اباحضور !  آپ درست فرماتے تھے ، واقعی وہ میرے دوست نہیں تھے ، جو مصیبت کا سن کر ہی بھاگ گئے ۔

والد نے کہا: بیٹے میرا ایک دوست ہے ، اور زندگی میں مَیں نے اس ایک کو ہی دوست بنایا ہے ؛ اب تُو یہ بوری لے کر اس کے گھر جا اور دیکھ وہ کیا کہتا ہے ۔

بیٹا اس کے گھر پہنچا اور اسے وہی کہانی سنائی ، جو اپنے دوستوں کو سنائی تھی ۔

اس نے بوری لے کر مکان کے پچھواڑے میں گڑھا کھود کر دبا دی ، اور اوپر پھول لگادیے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔

بیٹے نے باپ سے آکر سب کچھ بیان کیا اور کہا:

 اباجی آپ کا دوست تو واقعی سچا دوست ہے ۔

باپ نے کہا:بیٹا ! ابھی ٹھہرجاؤ ، اتنی جلدی فیصلہ نہ کرو ۔
کل اُس کے پاس دوبارہ جانا اور اس سے بدتمیزی کرنا ، پھر جو ردِ عمل ہوا وہ آکر مجھے بتانا ۔

بیٹے نے ایسے ہی کیا ........... گیا ، اور اس سے بد تمیزی اور لڑائی کی ۔

اس نے جواب میں کہا:

اپنے والد سے کہنا فکر نہ کرے ، تمھارا دوست " چمن " کبھی نہیں اُجاڑے گا ۔

( مطلب جو پودے لاش کے اوپر لگائے ہیں وہ سدا لگے رہیں گے ، انھیں کبھی نہیں اکھاڑوں گا ۔
یعنی تیرے بیٹے کی بدتمیزی کو دیکھ کر اس کا راز کبھی فاش نہیں کروں گا ، کیوں کہ میں تیرا دوست ہوں ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب تعالیٰ ہمیں بھی مخلص دوست نصیب کرے !
دوست مشکل‌ وقت میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا ، دوست ، دوست کے دنیا و آخرت میں کام آتا ہے ۔
وہ اس کے عیبوں کو دل ، دماغ ، اور آنکھوں کے سامنے نہیں رکھتا ، بلکہ پشت کے پیچھے گہرا گڑھا کھود کر ، اس میں ہمیشہ کے لیے دبا دیتا ہے ؛ اور اس کے اوپر محبت بھری نصیحت  کے پھول لگادیتا ہے ، جن کی خوشبو دوست کو آئندہ کے لیے عیبوں کی بدبو سے بچائے رکھتی ہے ۔

ہمارے اندر برداشت کا مادہ بہت کم ہے

ایک چهوٹا بچہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک سیب لیے کهڑا تها۔ 
اس کے والد نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا ایک سیب مجھے دے دو۔۔۔ !" 
اتنا سنتے ہی اس بچے نے ایک سیب کو اپنے دانتوں سے کاٹ لیا، 
اس سے پہلے کہ اُسکا باپ کچھ بول پاتا، 
اس نے دوسرا سیب بهی اپنے دانتوں سے کاٹ لیا۔ 
اپنے بیٹے کی اس حرکت پر وہ شخص غصے سے سیخ پاء ہو گیا، 
اور اُسکے چہرے سے اب مسکراہٹ بھی غائب ہو گئی، 
قریب تھا کہ وہ اُٹھ کر اُسے سزا دیتا۔
تب ہی بیٹے نے اپنے ننهے ہاتھ کو آگے بڑهاتے ہوئے کہا، "ابو یہ لو یہ والا زیادہ میٹھا ہے۔۔۔ !"

*ہمارے اندر برداشت کا مادہ بہت کم ہے، شاید اِسی وجہ سے اکثر ہم پوری بات اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔*

ایک ماں کی تڑپ

میں ابهی مریضوں سے نمٹ ہی رہا تھا کہ اچانک وہ بچے کو اٹهائے بوکهلائی ہوئی میرے کلینک میں آئی .پهولی ہوئی سانسیں بتا رہی تهیں کہ پیدل آئی ہے .اپنے حلیئےسے بهی بے نیاز لگتی تهی .بچے کو بیڈ پر لٹا کر تیزی سے میری طرف مڑی ۔
اس کے کچهہ کہنے سے پہلے میں جلدی سے اٹها اور بچے کا معائنہ کرنے لگا .گلے میں انفیکشن کی وجہ سے اسے تیز بخار تها جس کے سبب اس پر غنودگی طاری تهی۔
میں نے مکمل چیک اپ کے بعد اسے ضروری میڈیسن دی اور انجیکشن شامل کر کے ڈرپ لگا دی .اس تمام وقت وہ بے چینی سے بچے کے ارد گرد گهومتی رہی . میں نے اسے بولا
" اس کے قریب کرسی پر بیٹهہ جاو ،ڈرپ ختم ہونے تک ان شاء اللہ بچے کا بخار اتر جائے گا ."
بیٹهہ کر بهی اسے سکون نہ ملا .آئتیں پڑهہ پڑهہ کر اس پر دم کرتی رہی . بار بار اس کے ماتهے پر ہاتهہ رکهتی ،اس کا منہ چومتی اور اپنے آنسو صاف کرتی رہی ، تبهی میری نظر اس کے پاوں پر پڑی .جس سے خون رس رہا تها ،
میں نے پوچها ،"تمہارے پاوں کو کیا ہوا "جهک کر دیکها اور بے دلی سے مسکرا کر بولی .
"روڈ پر بہت رش تها ، سواری کے انتظار میں دیر ہو جاتی ، اس لئے بهاگی چلی آئی " میرے گهر سے بہت دور تو نہیں ہے آپ کا کلینک ! 
لیکن یہ خون ؟ میں نے کہا . 
سر جهکا کر شرمندہ سی بولی ،"گهر سے نکلتے ہوئے جوتی بدلنے کا خیال نہیں رہا ،گلی کی نکڑ پر موچی بیٹهتا ہے نا ،اس کی کوئی کیل اس پلاسٹک کی جوتی میں آگئی ہو گی "
پاوں اٹها کر دیکها تو واقعی ایک بڑی کیل جوتی سے آرپار ہو گئی تهی .جس نے اس کے تلوے میں اچها خاصا زخم کر دیا تها .میں نے نرس کو پاوں صاف کر کے پٹی کرنے کو کہا . 
جب بچے کی حالت سنبهلی تو سکون اس کی روح میں سما گیا .اسے اٹها کر جانے لگی تو میں نے کہا .
"تمہارے پاوں میں اتنا گہرا زخم ہے ،درد نہیں ہو رہا کیا ؟"
بچے کو سینے سے لگا کر چومتے ہوئے بولی .
"ڈاکٹر صاحب ! درد جب دل میں ہو تو پاوں میں کہاں رہتا ہے۔"

کامیابی کا کلیہ

 عظمت کے سفر میں انسانی مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انسان جب بھی عظمت کی طرف جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ کام پر فوکس کرتا ہے۔جب آدمی پوری یکسوئی کے ساتھ ایک کام شروع کرتا ہے تو پھر قدرت بھی انعام کے طور پر اسے منزل عطا کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر، قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے پاکستان بنایا۔ اگر آپؒ پاکستان کے بنانے کے ساتھ اور کام بھی کررہے ہوتے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی ایک منزل پر پہنچ پاتے۔ ذرا غور کیجیے کہ محمد علی جناح کیسے قائداعظم بنے۔ جس طر ح پاکستان بننے کا عمل تھا بالکل اسی طرح جناح سے قائداعظمؒ بننے کا عمل تھا۔ ایک شخص اگرایک کروڑ روپیہ کمائے تو ایک کروڑ اتنا قیمتی نہیں ہوگا جنتا کمانے والا ہوگا، کیونکہ تخلیق کا یہ اصول ہے کہ مخلوق ہمیشہ خالق کے سامنے عاجز  رہتی ہے۔ اصول ہے کہ جس مشین سے جو چیز بن کر نکلے گی وہ  چیز اہم نہیں ہوگی بلکہ مشین اہم ہو گی، کیونکہ چیز دوبارہ بن سکتی ہے، اس طرح جو ایک بار کامیاب ہوسکتا ہے وہ دوبارہ بھی کامیاب ہوسکتا ہے، جس کو ایک بار عظمت کا ذائقہ ملا ہے، وہ دوبارہ بھی عظمت حاصل کرسکتا ہے۔
 فوکس کامیابی کا کلیہ ہے۔ فوکس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ فوکس کا مطلب ہے کہ تن، من،دھن ایک شے پر لگادیا جائے۔ فوکس کا مطلب ہے کہ اپنی بے شمار خواہشات کو ذبح کر دینا اور ذبح کرنے کے بعد فقط ایک چیز پر تمام توانائیاں لگادینا۔ سابق وزیر اعلیٰ ٰحنیف رامے میں کئی خصوصیات تھیں۔ وہ سیاستدان تھے، شاعرتھے، مصور تھے۔ ان کے علاوہ ان کے پاس اور بڑا ہنر تھا۔ ایک دفعہ وہ حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپؒ نے جواب دیا، آپ ایک کام کریں۔ جس طرح ہانڈی میں ایک چیز پکتی ہے، اسی طرح آپ کے پاس جتنے ہنر ہیں، ان میں سے ایک کو ہانڈی میں ڈالیں، باقیوں کو چولھے میں ڈال دیں۔ انھوں نے اس بات اس وقت تو نہ سمجھا، مگر جب بات سمجھ آئی تو کہا کہ مجھے میانی صاحب کے قبرستا ن میں دفن کرنا۔ پوچھا گیا، کیوں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اس قبرستان میں بہت بڑا آدمی دفن ہے۔
لگانے کا راستہ
 بعض اوقات آپ نصیحت کو سننے کے بعدفوری نہیں مانتے، لیکن نصیحت کرنے والے کو مان جاتے ہیں۔ بعض اوقات نصیحت فوری اثر نہیں کرتی۔ اس کا اثر کچھ عرصہ بعد ہوتا ہے۔ لیکن جس نے نصیحت کی ہوتی ہے، اس کا پتا لگ جاتا ہے۔ عظمت کیلئے سب سے اہم چیز فوکس ہے۔ فوکس آنے کے بعد دن اور رات کا پتا نہیں چلتا۔ سچی کامیابی کا راستہ کمانے کا راستہ نہیں ہے، بلکہ لگانے کا راستہ ہے۔
کامیابی کا کلیہ کتاب:سوچ کا ہمالیہ   صفحہ نمبر:90   مصنف:قاسم علی شاہ.

تلحـــــــیاں

👈  زیادہ ملاقاتیں ہمیں تھکا دیتی ہیں۔
ہم صرف اس ملاقات سے تروتازہ ہوتے ہیں جسکی ہماری روح کو ضرورت ہوتی ہے 
یہ ملاقات کچھ لمحوں کی ہی کیوں نہ ہو بہت تاثیر چھوڑتی ہیں۔
ہم خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہو ہمیں ہمیشہ کسی ہم راز کی ضرورت رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی ہم سوچ کی، کسی ہم سفر کی۔۔۔۔۔۔
ورنہ ہم اکیلے تھک جاتے ہیں۔
ہمیں ضرورت ہے ایک دوسرے کی لیکن ہر دوسرا ہمارا ہم راز نہیں ہوسکتا۔۔۔
ہمیں تلاش کرنی پڑتی ہے  ایسے شخص کی کسی ایسے انسان کی جو ہمیں دبحمعی سے سن سکتا ہو۔
ہم ہر شخص کی گفتگو سے متاثر نہیں ہو سکتے ۔
گفتگو صرف اس بات نہیں کہ صرف تم سناؤ، سامنے والے کو سننا بھی گفتگو کے ارکان میں شامل ہوتا ہے
ہم بس سنانا جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم، ہم نہیں رہے، ہم میں بن گئے ہے۔۔
جب پاس رہنے والے لوگ پر سکون  ہوں، تروتازہ اور شاداب 
ہو تو انسان پریشان ہو کر بھی مطمئن رہتا ہیں۔
لیکن اگر ارد گرد والے مایوس ہوں، بیمار ہوں تو اچھا  بھلا ہشاش بشاش چہرہ بھی بے سکون ہو جاتا ہے ، ڈیریشن میں چلا جاتا ہے. 
ہم نہ اکیلے خوش رہ سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے ایسے لوگوں کے ساتھ جو مایوس ہو۔
ہر بات پر لمبی لمبی بحث  کرنے والےہوں۔ 
ہمیں خوش رہنے کے لئے روحانی رشتوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
اپنی روح سے ملتے جلتے لوگوں کی۔۔۔۔۔۔ 
ہمیں ﷲ سے ہی دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ _"ہمیں مومن لوگوں کی محبت عطا کر اور ہمیں مثبت لوگوں کا ساتھ نصیب فرمادے"_۔۔۔۔۔۔
ماحول انسان پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔
ملاقاتیں انسان کو بہت متاثر کرتی ہے۔
ہمیں ملاقاتوں کا بہتر چناؤ کرنا چاہیے۔۔
جن ملاقاتوں سے ہم ڈپریس ہوں ہمیں ان ملاقاتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کبھی کبھار ہماری ڈپریشن ہمارے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔
ہمیں کوئی بڑی پریشانی نہیں ہوتی مگر پھر بھی ہم نیم نیم پریشان ہوتے ہیں ۔ 
بڑی پریشانی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہے کہ ہم کیوں پریشان ہیں ۔
کم از کم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اپنی حاجات تو طلب کر سکتے ہیں۔
یہ جو نیم نیم پریشانی ہوتی ہے یہ روح کو گھائل کر دیتی ہے۔
اس پریشانی میں سب سے بڑی پریشانی تو یہ ہوتی ہے کہ ہم دکھی کیوں ہے؟ 
سب کچھ ہمارے پاس ہے۔۔۔۔۔
سارے کام ہو رہے ہیں پھر بھی دماغ بوجھ محسوس کر رہا ہے۔ 
کس قدر بے بسی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔
بندہ کیا مانگے رب سے۔۔۔۔۔ 
لیکن اپنی دعاؤں میں سکون ضرور طلب کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
یہاں اچھے اور برے کو مان کر سکون نہیں ملتا ۔
یہاں سکون والا وہ ہے جسے اللہ سکون میں رکھے ۔۔۔
اللہ ہی سے دعا گو ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں کسی کا  محتاج نہ بنائے ۔۔
یہاں قصور والا اور بنا قصور والے سب برابر ہیں، 
ایک جیسی سزائیں دی جا رہی ہے 
جس کا قصور اسے سزا اور جس کا قصور نہیں اس کی آزمائش۔۔۔
ہمیں رب سے یہ مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں سخت ترین آزمائشوں سے دور رکھے۔۔۔

کسی کی تضحیک نہ کرے

•    👈 یار اپنا موبائل دینا مجھے ، ایک چھوٹی سی کال کرنی ہے ، راشد کے روم میٹ اسد نے اسے کہا
میرے پاس بیلنس نہیں ہے ، راشد نے جواب دیا
کبھی اس میں بیلنس بھی ڈلوا لیا کرو شیخ صاحب ، اسد نے طنزیہ انداز میں کہا اور راشد پھیکی سے مسکراہٹ دکھا کر چپ ہوگیا
کل یکم تاریخ تھی یعنی تنخواہ ملنے کا دن اس لئےکمرے میں بیٹھے پانچوں روم میٹ کل رات کا کھانا کسی ہوٹل میں کھانے کا پروگرام بنا رہے تھے 
راشد نے حسب معمول پروگرام میں شریک ہونے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرے معدے میں تکلیف ہے جسے باقی چاروں روم میٹس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لیا
کیشئیر(تنخواہ دینے والا) نے راشد کا نام اور کارڈ نمبر پکارا تو راشد بوجھل دل کیساتھ آگے بڑھا اور مبلغ چودہ ہزار روپے تنخواہ وصول کرلی
کمرے میں اکیلا بیٹھا وہ دل ہی دل میں ادائیگیوں کا تخمینہ لگا رہا تھا ۔ دوکان والے کا ادھار، دو بہنوں اور ایک بھائی کی سکول کی کتابیں ، امی کی دوائیاں ، گھر کا کرایہ اور اپنے ایک دانت کی روٹ کینال جس میں پچھلے دو ماہ سے بہت تکلیف تھی
طلب رسد سے زیادہ تھی ، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان میں سے کون سی چیز چھوڑ دے کہ آمدنی اور اخراجات برابر ہو سکیں
پالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ دانت کے درد کو ایک ماہ مزید برداشت کر کے روٹ کینال والے چودہ  سو روپے بچائے جا سکتے ہیں
کمرے میں حبس تھا ، وہ اٹھا اور کھڑکی کے پٹ کھول کر کھڑا ہوگیا تا کہ تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں انڈیل سکے
باہر گلی میں اس کے روم میٹس اور دیگر دو کولیگز کھڑے باتوں میں مصروف تھے ، اپنا نام سن کرراشد چونکا اور ذرا توجہ سے انکی باتیں سننے لگا
اسد بولا ، یار یہ راشد تو پرلے درجے کا کنجوس ہے ، کبھی ایک کپ چائے تک تو پلائی نہیں اس نے ، پیسے جیب سے نکالتے ہوئے جان جاتی ہے اس کی
تم چائے کی بات کرتے ہو ، اس کے جوتوں اور پینٹ کی حالت دیکھی ہے ، اس سے اچھی حالت میں تو استعمال شدہ اور (سیکنڈ ہینڈ، لنڈے) کا سامان مل جاتا ہے ، دوسرا روم میٹ بولا
کھڑکی میں کھڑے راشد کا دل دکھ اور صدمے سے نڈھال ہو گیا اور دو آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کی دہلیزپار کر گئے

ہر پڑھنے والا پڑھنے کے بعد ایک شیئر کردے تو لوگوں میں آگاہی لانے کی آپکی کوشیش کو سراہا جاے گا ، 
براہ کرام شیئر کرکہ ہماری مدد کریں ، جزاک اللہ خیراً۔
خدمت خلق کا جذبہ پیدا کریں
اور 
کسی کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھائیں۔ 
المسلم أخو المسلم.(الحديث)

ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے

” تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا..
اپنے بچپن میں  بخار کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہو گیا تھا.
جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ " اپنی ماں کو دے دو ."

ماں نے کھول کر پڑھا.اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.

پھر اس نے با آواز بلند پڑھا.

*” تمھارا بیٹا ایک جینئس ہے، یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں. “*
اسکے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی.

سالوں بعد جب *تھامس ایڈیسن* ایک سائنسدان کے طور مشہور عالم ہو گیا تھا.

اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے

پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا.

اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا.

*” آپ کا بیٹا انتہائی غبی ( کند ذہن ) اور ذہنی طور پہ ناکارہ ہے... ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے.“*

اسی دن *ایڈیسن* نے اپنی ڈائری میں لکھا.

*” _تھامس ایلوا ایڈیسن_ ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا. “*

_*(ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے )*_

محبت بڑھاۓ نفرت ختم کرے

ہم سب اپنے ساتھ جڑے رشتوں سے محبت کرتے ہیں اور محبتوں کو بڑھانا بھی چاہتے ہیں، تو ایسا کونسا عمل کریں جس سے محبت بڑھے نفرت کم ہو؟
محبت بڑھانا یا نفرت کم کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے بس تھوڑی سی کوشش اور اپنے انداز میں تبدیلی لانی ہے، 
اگر محبتوں میں اضافہ کرنا ہے تعریف کی مقدار کو بڑھا دیجیے، اور نفرت میں اضافہ کرنا ہےتو تنقیدکو بڑھا دیجیے،
مسئلہ یہ ہےکے ہم لوگ اکثر تنقید میں سخاوت اور تعریف میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے رشتوں میں دراڑ پڑنے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے،
رشتے بھی پھولوں اور پودوں کی طرح نازک اور توجہ طلب ہوتے  ہیں، جس طرح کچھ پھول خوشبو دار کچھ بنا خوشبو والے،کچھ پودے کانٹے دار کچھ بنا کانٹے والے ہوتے ہیں ،،،
اسی طرح ہماری زندگی کے باغ میں بھی انسانوں کی شکل میں رشتوں کے پودے اُگتے ہیں،کچھ ہمدرد،نرم مزاج کے کچھ غصیلے، الجھے مزاج کے،
اگر ان رشتوں کے پودوں کو خلوص اور ہمدردی کے بیج کے ساتھ توجہ اور تعریف کا پانی ملتا رہے تو یہ ہمیشہ خوشنما، ترو تازہ و توانا رہتے ہیں،
ہاں ایسا بھی ہوگا ان کی دیکھ بھال کے دوران کسی پودے کا کانٹا ہاتھ میں چُبھے گا تکلیف بھی ہوگی،کبھی 
 بنا خوشبو کے پھول کی طرح  بدبو دار رویّے بھی سامنے آئیں گے
 تو کیا ہم پودوں کو اکھاڑ پھینکیں یا خود کو باغ سے دور کر لیں؟؟؟
کیوں ہم اپنے رشتوں کو اتنا مشکل بنا کر اُلجھا کر خود بھی اُلجھے رہتے ہیں؟
خُدارا اپنے رشتوں کی نشو نما کے لیے انہیں سمجھیں ان کو وقت دیں،
 دیکھیں کس پودے کو کب، کتنا وقت، کتنا پانی، کتنی توجہ، دینی ہے ان سب کو سمجھیں،
ہمارے اپنے،ہمارے رشتےاچھے یا بُرے جیسے بھی ہیں بہت خوبصورت ہوتے ہیں، ان کا احترام کریں،عزت دیں،
اللّٰہ سے دعا ہے کے وہ ہمارے  رشتوں کے اس باغ کو ہمیشہ 
سر سبزو شاداب رکھے 
آمین . . .

ﷲ تعالٰی کی محبت اور شفقت


روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا پر طوفان آ چکا، ساری قوم اس طوفان کے نتیجے میں ہلاک ہو گئی تو اس کے بعد اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم مٹی کے برتن بناؤ ۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں مٹی کے برتن بنانا شروع کر دیئے اور دن رات اس میں لگے رہے ۔ جب کئی دن گزر گئے اور برتنوں کا ڈھیر لگ گیا، تو اللہ تعالٰی نے دوسرا حکم یہ دیا کہ اب ان سب برتنوں کو ایک ایک کر کے توڑ دو ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا اللہ! میں نے بڑی محنت سے اور آپ کے حکم پر بنائے تھے، اب آپ ان کو توڑنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، کہ ہمارا حکم یہ ہے کہ اب ان کو توڑ دو ۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو توڑ دیا ۔ لیکن دل دکھا کہ اتنی محنت سے بنائے اور ان کو تڑوا دیا ۔

اللہ تعالٰی نے فرمایا، اے نوح!  تم نے اپنے ہاتھوں سے یہ برتن بنائے، اور میرے حکم سے بنائے، ان برتنوں سے تمہیں اتنی محبت ہو گئی کہ جب میں نے تمہیں ان کو توڑنے کا حکم دیا تو تم سے توڑا نہیں جا رہا تھا ۔ دل یہ چاہ رہا تھا کہ یہ برتن جو میری محنت اور میرے ہاتھ سے بنے ہیں کسی طرح بچ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لئے کہ تمہیں ان برتنوں سے محبت ہو گئی تھی ۔ لیکن تم نے ہمیں نہیں دیکھا کہ ساری مخلوق ہم نے اپنے ہاتھ سے بنائی اور تم نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ_:
رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّا رََا _
(سورۃ نوح : ٢٦)
اے اللہ زمین میں بسنے والے سب کافروں کو ہلاک کر دے اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے۔

تمہارے اس کہنے پر ہم نے اپنی مخلوق کو ہلاک کر دیا ۔

اشارہ اس بات کی طرف فرمایا کہ جس مٹی سے تم برتن بنا رہے تھے، باوجود یہ کہ وہ مٹی تمہاری پیدا کی ہوئی نہیں تھی، اور اپنی خواہش سے وہ برتن نہیں بنا رہے تھے بلکہ میرے حکم سے بنا رہے تھے ۔ پھر بھی تمہیں ان سے محبت ہو گئی تھی، تو کیا ہمیں اپنی مخلوق سے محبت نہیں ہو گی؟ 
واللہ عالم 

سبحان اللہ ، 
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی ماں کی محبت سے ستر گنا زیادہ  محبت کرنے والا اور باپ کی شفقت سے سو (١٠٠)  گنا زیادہ شفیق ہے۔ تو یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نہ کسی پر ظلم کرتا ہے نہ اپنے بندوں پر سختی چاہتا ہے، اور نہ ہی ان کی ہلاکتوں اور بربادیوں سے خوش ہوتا ہے ۔ لیکن جو بھی بُرا ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ دراصل ہماری ہی کوتاہیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد پاک خاص طور پر یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر اللہ کے نزدیک اس دنیا کی ذرہ برابر بھی وقعت ہوتی تو وہ کافروں کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتا ۔ اس ذاتِ کریمی کی نافرمانیوں کے باوجود یہ اس کی کریمی ہے کہ وہ کِھلا بھی رہا ہے، پِلا بھی رہا ہے، پال بھی رہا ہے، نگہداشت بھی کر رہا ہے ۔ تا حیات برستی ان رحمتوں  کا تو ہم شکر ادا کرتے نہیں، جبکہ ہمہ وقت کی ناشکری ہماری فطرت بن چکی ہے۔ سچ کہوں کہ کم نصیبی تو یہ ہے کہ اس ذات مہربان کی ان تمام مہربانیوں کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہے - بہرحال اللہ تعالٰی کا حضرت نوح علیہ السلام سے فرمائے گئے ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ اس کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے ۔ یعنی اگر تمہیں میرے ساتھ محبت ہے تو پھر تمہیں میری مخلوق کے ساتھ بھی محبت کرنا پڑے گی..

حضرت نوح علیہ السلام اور ابلیس لعین

روایت ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر جا کر رکی تو تو ابلیس نے پانی پر بیٹھ کر حضرت نوح علیہ السلام سے کہا، اے نوح (علیہ السلام) تو نے بد دعا کر کے دنیا کو پانی میں غرق کر دیا۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا، اب تمہارا کام یہ ہے کہ خدا سے توبہ کرو اور خدا کے فرمانبردار بندے بن جاؤ ۔ ابلیس نے کہا کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اگر قبول ہونے کی امید ہے تو آپ میرے حق میں سفارش فرما دیجیئے ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے مناجات میں حق تعالٰی سے عرض کیا کہ ابلیس توبہ کی درخواست کررہا ہے، کیا حکم ہے ۔ حکم ہوا شیطان سے کہہ دو کہ اگر وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کر لے تو توبہ قبول کر لی جائے گی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کا حکم ابلیس کو سنایا تو ابلیس نے جواب دیا، کہ میں نے زندہ آدم کو تو سجدہ نہیں کیا تھا، اب مرنے کے بعد ان کو کب سجدہ کرنے والا ہوں ۔ ابلیس نے کہا، چونکہ آپ نے خدا کی جانب میری سفارش کی تھی اس لئے شکریہ کے طور پر آپ سے تین باتیں عرض کرتا ہوں۔ 

١۔ جس وقت غصہ آئے مجھے یاد کر لیا کرو، غصہ کے وقت میں انسان کا چہرہ ، منہ ، ناک بن جاتا ہوں اور خون کی طرح رگ رگ میں دوڑتا پھرتا ہوں ۔ 

٢۔ لڑائی کے وقت بھی مجھے یاد کر لیا کرو ۔ اس موقع پر میں لوگوں کے دلوں میں بیوی بچے کا خیال ڈال دیتا ہوں ۔ 

۳۔ کسی نامحرم عورت کے ساتھ کبھی تخلیہ میں نہ بیٹھنا ۔ میں ایسے وقت نہ معلوم کیا کر گزرتا ہوں ۔ 

ایک روایت میں ہے کہ ابلیس نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا تھا، کہ حسد ، حرص نہ کرنا ۔ حسد کی وجہ سے میں اور حرص کی وجہ سے آدم علیہ السلام  جنت سے نکال دیئے گئے ۔ 

وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ طوفان کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم زمین پر آباد ہو گئی، تو ابلیس لعین نے حضرت نوح علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، آپ نے مجھ پر احسان عظیم فرمایا ہے، آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اس احسان کے بدلے میں آپ جو بات مجھ  سے دریافت فرمائیں گے، اس کا صحیح صحیح جواب دوں گا ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے شیطان کی بات سن کر منہ پھیر لیا ۔ وحی آئی کہ اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہو، ابلیس سے پوچھ لو، وہ تمہیں صحیح صحیح جواب دے گا ۔ نوح علیہ السلام نے ابلیس لعین سے پوچھا، یہ بتا دنیا میں تیرا یار و مدد گار کون ہے؟ ابلیس نے جواب دیا، میرے یار و مدد گار وہ لوگ ہیں جو بخل اور تکبر کرتے ہیں، اور ہر کام میں عجلت کے عادی ہیں ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا، تُو میرا کس بات پر شکریہ ادا کرنے آیا تھا، میں نے تجھ پر کیا احسان کیا ہے؟ تو شیطان نے جواب دیا، کہ آپ نے بد دعا کر کے ساری قوم غرق کرا دی۔ مجھے ان کی گمراہی کے فکر سے نجات مل گئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام یہ سن کر بہت پشیمان ہوئے اور عجلت پسندی سے چار برس تک بارگاہِ الہٰی میں گریہ و زاری کرتے رہے ۔

*نوٹ:* 
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے..

شمشیرِ بے نیام E17


قـسط نمبر 17

مصنف/ عنایت اللّٰہ التمش

ان سے پوچھا گیا کہ مکہ میں لڑائی کی تیاریاں کس پیمانے پر ہو رہی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابو سفیان لڑائی نہیں چاہتا اور مکہ والوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ صرف عکرمہ اور صفوان لڑیں گے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہیں۔ان دونوں آدمیوں کو ابو سفیان نے نہیں عکرمہ اور صفوان نے بھیجا تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا کہ مکہ میں یہ فرض کرکے داخل ہو اجائے گا کہ قریش شہر کے دفاع میں لڑیں گے ۔آپﷺ نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔اس زمانے میں مکہ کی طرف چار راستے جاتے تھے جو مکہ کے اردگرد کھڑی پہاڑیوں میں سے گزرتے تھے۔فوج کے ہر حصے کو ایک ایک راستہ دے دیا گیا ۔انہیں اپنے اپنے راستے سے مکہ شہر کی طرف پیش قدمی کرنی تھی ۔فوج کے ان حصوں میں ایک کی نفری سب سے زیادہ رکھی گئی۔ اس کی کمان ابو عبیدہؓ کو دی گئی ۔حضورﷺ کو اس دستے کے ساتھ رہنا تھا ۔ایک حصے کی کمان علیؓ کے پاس تھی۔ ایک کے کماندار زبیرؓ تھے اور چوتھے حصے کی کمان خالدؓ کے پاس تھی
۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس اسکیم میں غیر معمولی دانش کار فرما تھی۔چار سمتوں سے پیش قدمی کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے دفاعی دستوں کو چار حصوں میں بکھیر دیا جائے۔ اگر وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو کسی ایک یا دو راستوں پر روک بھی لیں تو دوسرے دستے آگے بڑھ کر شہر میں داخل ہو سکیں ۔اس کے علاوہ فوج کی اس تقسیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ قریش اگر دفاع میں نہ لڑیں تو وہ کسی راستے سے بھاگ بھی نہ سکیں۔رسولِ اکرمﷺ نے اس اسکیم کے علاوہ جو احکام دیئے وہ یہ تھے۔’’ قریش دفاع میں نہ لڑیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ امن کا جواب پرامن طریقے سے دیا جائے۔ اگر کہیں جھڑپ ہو جائے تو زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کی جائے۔لڑنے والوں میں جو پکڑا جائے اس پر تشدد نہ کیا جائے نہ اسے قتل کیا جائے اور اسے جنگی قیدی بھی نہ سمجھا جائے،اور ان میں سے کوئی بھاگ نکلے تو اسے بھاگ جانے دیا جائے۔‘‘اسلامی لشکر کے چاروں حصوں کو پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا۔ ۲۰ رمضان المبارک ۸ہجری )۱۱جنوری ۶۳۰عیسوی(کا دن تھا۔ اسلامی لشکر کے تین حصے اپنے راستوں سے گزر کر مکہ میں داخل ہو گئے ۔کسی طرف سے ان پر ایک تیر بھی نہ آیا۔ شہر کاکوئی دفاع نہ تھا۔ قریش کی کوئی تلوار نیام سے باہر نہ نکلی ،لوگ گھروں میں بند رہے، کسی کسی مکان کی چھت پر کوئی عورت یا بچے کھڑے نظر آتے تھے ۔مسلمان چوکنّے تھے ،شہر کا سکوت مشکوک اور ڈراؤنا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے اس سکوت سے کوئی طوفان اٹھنے والا ہو-
شہر سے کوئی طوفان نہ اٹھا،طوفان اٹھانے والے دو آدمی تھے ایک عکرمہ اور دوسرا صفوان۔دونوںشہر میں نہیں تھے، کئی اور آدمی شہر میں نہیں تھے۔وہ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے تھے۔ وہ رات کو باہر نکل گئے تھے۔ ان کے ساتھ تیر انداز بھی تھے ۔یہ ایک جیش تھا جو اس پہاڑی راستے کے قریب جا پہنچا تھا جو خالد کے دستے کی پیش قدمی کا رستہ تھا۔
عکرمہ اور صفوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس اسلامی دستے کے قائد خالدؓ ہیں۔ عکرمہ اور صفوان کا ایک آدمی کہیں بلندی پر تھا۔ اس نے خالدؓ کو پہچان لیا اور اوپر سے دوڑتا نیچے گیا۔’’اے صفوان! ‘‘اس آدمی نے صفوان سے کہا۔’’کیا تو ہمیں اجازت دے گا کہ تیری بیوی کے بھائی کو ہم قتل کر دیں؟ میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ میں نے خالدکو دیکھا ہے ۔‘‘’’اپنے قبیلے کی عزت اور غیرت سے بڑھ کر مجھے کوئی اور عزیز نہیں ہے ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’اگر خالد میری بہن کا خاوند ہوتا تو آج میں اپنی بہن کو بیوہ کر دیتا۔‘‘’’مت دیکھو کون کس کا بھائی ،کس کا باپ اور کس کا خاوند ہے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’خالد میرا بھی کچھ لگتا ہے لیکن آج وہ میرا دشمن ہے ۔‘‘خالدؓ کا دستہ اور آگے آیا تو اس پر تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔خالد ؓنے اپنے دستے کو روک لیا ۔’’اے اہلِ قریش! ‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’ہمیں راستہ دے دو گے تو محفوظ رہو گے۔ہمارے رسولﷺ کا حکم ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تم پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔کیا تمہیں اپنی جانیں عزیز نہیں ؟میں تمہیں صرف ایک موقع دوں گا۔‘‘تیروں کی ایک اور بوچھا ڑ آئی۔’’ہم تیرے رسول)ﷺ(کے حکم کے پابند نہیں خالد۔‘‘عکرمہ نے للکار کر کہا۔’’ہمت کر اور آگے آ۔ہم ہیں تمہارے پرانے دوست صفوان اور عکرمہ،تو مکہ میں زندہ داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘خالدؓنے تیروں کی دوسری بوچھاڑ سے معلوم کر لیا تھا کہ دشمن کہاں ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک کر پیچھے ہٹا لیا اور اپنے کچھ آدمیوں کو پہاڑیوں کے اوپر سے آگے بڑھنے اور تیر اندازوں پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔عکرمہ اور صفوان خالدؓ کے ان آدمیوں کو نہ دیکھ سکے ،تھوڑی سی دیر میں یہ آدمی دشمن کے سر پر جا پہنچے۔وادی سے خالد ؓنے ہلّہ بول دیا جو اس قدر تیز اورشدید تھا کہ قریش کے پاؤں اکھڑ گئے ۔خالدؓ نے اوپر سے بھی حملہ کرایا تھا اور نیچے سے بھی۔
’’کہاں ہو عکرمہ ؟‘‘خالدؓللکار رہے تھے۔’’کہاں ہو صفوان؟‘‘وہ دونوں کہیں بھی نہیں تھے۔وہ خالد ؓکے ہلّے کی تاب نہ لا سکے اور خالدؓکو نظر آئے بغیر کہیں بھاگ گئے۔ ان کا جیش بھی لاپتا ہو گیا ۔پیچھے قریش کی بارہ لاشیں رہ گئیں۔ مختصر سی اس جھڑپ میں دو مسلمان جبشؓ بن اشعر اور کوز بن جابر فہریؓ شہید ہوئے۔اسلامی فوج کے تین حصے مکہ میں داخل ہو چکے تھے ۔خالدؓ کادستہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔سب حیران تھے کہ اہل ِمکہ نے مزاحمت نہیں کی پھر خالدؓ کے نہ آنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک قاصد کو دوڑایا گیا ۔وہ خبر لایا کہ خالدؓ دو مسلمانوں کی لاشیں لے کرآ رہا ہے اور اس کے دستے نے قریش کے بارہ آدمی مار ڈالے ہیں ۔رسولِ کریمﷺ نے سنا تو آپﷺ بہت برہم ہوئے۔ آپﷺ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالدؓ جنگ و جدل کا دلدادہ ہے۔اس نے بغیر اشتعال کے لڑائی مول لے لی ہو گی۔خالد ؓ کے مکہ میں آنے کی اطلاع ملی تو رسول اﷲﷺ نے انہیں بلا کر پوچھا کہ اس حکم کے باوجود کہ لڑائی سے گریز کیا جائے انہوں نے قریش کے بارہ آدمیوں کو کیوں مار ڈالا؟خالدؓ نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان کے ساتھ قریش کے متعدد آدمی تھے جنہوں نے ان پر تیر برسائے۔ خالدؓ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عکرمہ اور صفوان کو ایک موقع دیا تھا لیکن انہوں نے تیروں کی ایک اور بوچھاڑ پھینک دی۔رسولِ خداﷺ نے ابو سفیانؓ سے پوچھا کہ عکرمہ اورصفوان کہاں ہیں؟ابو سفیانؓ نے بتایا کہ وہ مکہ کے دفاع میں لڑنے کیلئے چلے گئے تھے ۔رسولِ خداﷺ کو یقین ہو گیا کہ لڑائی خالدؓ نے شروع نہیں کی تھی۔مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔
رسولِ اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے ہمراہ اسامہؓ بن زیدؓ ،بلالؓ اور عثمان بن طلحہؓ تھے۔رسولِ کریمﷺ کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو گئے سات سال گزر چکے تھے ۔آپﷺ نے مکہ کے درودیوار کو دیکھا ۔وہاں کے لوگوں کو دیکھا، دروازوں اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کودیکھا ۔بہت سے چہرے شناسا تھے۔ آپﷺ گزرتے چلے گئے اور کعبہ میں داخل ہو گئے ۔سات مرتبہ بیت اﷲکا طواف کیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔اب مکہ میں کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ آپﷺ کو جادوگر کہے یا آپﷺ پر پھبتی کسے۔
ہلِ قریش چہروں پر خوف و ہراس کے تاثرات لیے اپنے انجام کے منتظر کھڑے تھے۔عربوں کے ہاں اپنی بے عزتی اور قتل کے انتقام کا رواج بڑا بھیانک تھا۔ رسول اﷲﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ جو امن قائم رکھیں گے ان کے ساتھ پر امن سلوک کیا جائے گا۔اس کے باوجود قریش ڈرے سہمے ہوئے تھے ۔’’اہلِ قریش!‘‘ حضورﷺ نے لوگوں کے سامنے رک کر پوچھا۔’’خود بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو؟‘‘لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ خیر اور بخشش کے طلبگار تھے۔’’اپنے گھروں کو جاؤ ۔‘‘حضورﷺ نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں بخش دیا۔‘‘رسول اﷲﷺ کی حیات ِ مقدسہ کی عظیم گھڑی تو وہ تھی جب آپﷺ نے کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی طرف توجہ دی۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی۔ان میں ایک بت حضرت ابراہیمؑ کا بھی تھا ۔اس بت کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ ان تیروں سے بت خانے کے پیشوا فال نکالا کرتے تھے۔حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک موٹی اور مضبوط لاٹھی تھی۔آپﷺ نے اس لاٹھی سے بت توڑنے شروع کر دیئے۔آپﷺ اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو زندہ کر رہے تھے ۔آپﷺ بت توڑتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے:’’ حق آیا…… باطل چلا گیا……بے شک باطل کو چلے جانا تھا……‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایسے لگتا تھا جیسے یہ صدائیں حضورﷺ کی لاٹھی کی ہر ضرب سے کعبہ کی دیواروں سے اٹھ رہی ہوں ۔کعبہ سے بتوں کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دیئے گئے اور کعبہ عالمِ اسلام کی عبادت گاہ بن گیا۔اس کے بعد آپﷺ نے مکہ کے انتظامی امور کی طرف توجہ دی۔قریش اور دیگر قبائل کے لوگ قبولِ اسلام کیلئے آتے رہے۔بت صرف کعبہ میں ہی نہیں تھے۔مکہ کے گردونوح کی بستیوں میں مندر تھے ۔وہاں بھی بت رکھے تھے۔ سب سے اہم بت عزیٰ کا تھا جو چند میل دور نخلہ کے مندر میں رکھا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے عزیٰ کا بت توڑنے کا کام خالدؓ کے سپرد کیا ۔خالدؓ نے اپنے ساتھ تیس سوار لیے اور اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ دوسرے مندروں کے بت توڑنے کیلئے مختلف جیش روانہ کیے گئے۔عزیٰ کا بت اکیلانہیں تھا۔ چونکہ یہ دیوی تھی اس لیے اس کے ساتھ چھوٹی دیویوں کے بت بھی تھے۔خالدؓ وہاں پہنچے تومندر کا پروہت ان کے سامنے آگیا ۔اس نے التجا کی کہ ان کے بت نہ توڑے جائیں ۔’’مجھے عزیٰ کا بت دکھاؤ۔‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر پروہت سے پوچھا۔
پروہت موت کے خوف سے مندر کے ایک بغلی دروازے میں داخل ہو گیا۔ خالدؓ اس کے پیچھے گئے۔ ایک کمرے سے گزر کر اگلے کمرے میں گئے تو وہاں ایک دیوی کا بڑا ہی خوبصورت بت چبوترے پر رکھاتھا۔پروہت نے بت کی طرف اشارہ کیا اور بت کے آگے فرش پرلیٹ گیا۔ مندر کی داسیاں بھی آ گئیں ۔خالدؓ نے تلوار سے اس حسین دیوی کا بت توڑ ڈالااور اپنے سواروں سے کہا کہ بت کے ٹکڑے باہر بکھیر دیں۔پروہت دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور داسیاں بَین کر رہی تھیں۔خالدؓ نے دیویوں کے بت بھی توڑ ڈالے اور گرج کر پروہت سے کہا۔’’کیا اب بھی تم اسے دیوی مانتے ہو جو اپنے آپ کو ایک انسان سے نہیں بچا سکی۔‘‘پروہت دھاڑیں مارتا رہا ۔خالدؓ فاتحانہ انداز سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اوراپنے سواروں کوواپسی کا حکم دیا ۔جب خالدؓ اپنے تیس سواروں کے ساتھ مندر سے دور چلے گئے تو پروہت نے جو دھاڑیں مار رہا تھا بڑی زور سے قہقہہ لگایا ۔پجارنیں جو بَین کر رہی تھیں وہ بھی ہنسنے لگیں۔’’ عزیٰ کی توہین کوئی نہیں کر سکتا ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’خالد جو خود عزیٰ کا پجاری ہوا کرتا تھا بہت خوش ہو کے گیا ہے کہ اس نے عزیٰ کا بت توڑ ڈالا ہے۔ عزیٰ زندہ ہے…… زندہ رہے گی۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے حضور ﷺ کو اطلاع۔’’ دی میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’کہاں تھا یہ بت؟‘‘حضورﷺ نے پوچھا۔خالدؓ نے وہ مندر اور اس کا وہ کمرہ بتایا جہاں انہوں نے وہ بت دیکھا اور توڑا تھا۔’’تم نے عزیٰ کا بت نہیں توڑا خالد!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’واپس جاؤ اور اصلی بت توڑکر آؤ۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ عزیٰ کے دو بت تھے ایک اصلی جس کی پوجا ہوتی تھی دوسرا نقلی تھا۔ یہ غالباً مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے بنایا گیا تھا۔خالدؓکا خون کھولنے لگا،انہوں نے اپنے سواروں کو ساتھ لیااور نخلہ کو روانہ ہو گئے۔مندر کے پروہت نے دور سے گھڑ سواروں کو آتے دیکھا تو اس نے مندر کے محافظوں کو بلایا۔’’وہ پھر آ رہے ہیں ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’انہیں کسی نے بتادیا ہو گا کہ اصلی بت ابھی مندر میں موجود ہے۔ کیا تم عزیٰ کی عزت کی حفاظت کرو گے؟اگر کرو گے تو عزیٰ دیوی تمہیں مالا مال کر دے گی۔‘‘’’کچھ سوچ کر بات کر مقدس پیشوا!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’کیا ہم دو تین آدمی اتنے زیادہ گھوڑ سواروں کامقابلہ کر سکتے ہیں ؟‘‘
’’اگر عزیٰ دیوی ہے تو یہ اپنے آپ کو ضرور بچا لے گی۔‘‘ ایک اور محافظ نے کہا۔اس کے لہجے میں طنز تھی۔ کہنے لگا۔’’ دیوی دیوتا انسانوں کی حفاظت کیاکرتے ہیں، انسان دیوتاؤں کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔‘‘
’’پھر عزیٰ اپنی حفاظت خود کرے گی۔‘‘ پروہت نے کہا۔خالدؓ کے گھوڑے قریب آ گئے تھے ۔محافظ مندر کی پجارنوں کو ساتھ لے کر بھاگ گئے ۔پروہت کو یقین تھا کہ اس کی دیوی اپنے آپ کو مسلمانوں سے بچا لے گی۔اس نے ایک تلوار لی اور اسے عزیٰ کے گلے میں لٹکا دیا۔ پروہت مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا اور بھاگ گیا۔خالدؓمندر میں آن پہنچے اور تمام کمروں میں عزیٰ کا بت ڈھونڈنے لگے ۔انہیں ایک بڑا ہی خوشنما کمرہ نظر آیا ۔اس کے دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھا ،عزیٰ کا بت سامنے چبوترے پر رکھا تھا۔اس کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی ۔یہ بت ویسا ہی تھا جیسا خالدؓ پہلے توڑ گئے تھے۔ا س بت کے قدموں میں لوبان جل رہا تھا۔ کمرے کی سجاوٹ اورخوشبو سے پتا چلتاتھاکہ یہ عبادت کا کمرہ ہے۔ خالدؓ نے دہلیز سے آگے قدم رکھا تو ایک سانولے رنگ کی ایک جوان عورت جو بالکل برہنہ تھی خالدؓ کے سامنے آگئی ۔وہ رو رہی تھی اور فریادیں کر رہی تھی کہ بت کو نہ توڑا جائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ عورت خالدؓ کے ارادے کو متزلزل کرنے کیلئے برہنہ ہوکہ آئی تھی اور اس کے رونے کا مقصد خالدؓ کے جذبات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔خالدؓ آگے بڑھے تو اس عورت نے بازو پھیلا کر خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓ نے نیام سے تلوار نکالی اور اس عورت پر ایسا زور دار وار کیاکہ اس کا ننگا جسم دو حصوں میں کٹ گیا۔خالدؓ غصے سے بپھرے ہوئے بت تک گئے اور اس کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔طاقت اور خوشحالی کی دیوی اپنے آپ کو ایک انسا ن سے نہ بچا سکی۔خالدؓ مندر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی۔ ان کے سوار ان کے پیچھے جارہے تھے ۔مکہ پہنچ کر خالدؓ رسولِ اکرمﷺ کے حضورپہنچے۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’ہاں خالد ! ‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اب تم نے عزیٰ کا اصلی بت توڑا ہے۔اب اس خطے میں بت پرستی نہیں ہوگی۔‘
قریش کا مشہور اور جوشیلا سالار عکرمہ مکہ کے راستے میں خالدؓ کے خلاف آخری معرکہ لڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔اس نےاورصفوان نے اپنے قبیلے کے سردارکی حکم عدولی کی تھی۔ اسے اپنا انجام بہت برا نظر آرہا تھا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اس کی یہ خطا نہیں بخشیں گے کہ اس نے اسلامی فوج کے ایک دستے پر حملہ کیا اور اس دستے کے دو آدمی شہید کر دیئے تھے۔عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔ تاریخوں میں واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فتحِ مکہ کے بعد قریش کی چار عورتوں اور چھ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کی تھیں۔انہیں مرتد کہاگیا تھا۔ان میں ہند اور عکرمہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ابو سفیان کی بیوی ہند ہر اس انسان کے خون کی پیاسی ہو جاتی تھی جو اسلام قبول کرلیتا تھا۔عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔فتح مکہ کے دو تین روز بعد ایک آدمی عکرمہ کے گھر آیا۔’’میں تمہارے لیے اجنبی ہوں بہن! ‘‘اس شخص نے عکرمہ کی بیوی سے کہا
۔’’عکرمہ میرا دوست ہے ۔میں قبیلہ بنو بکر کا آدمی ہوں ……تمہیں معلوم ہو گا کہ عکرمہ اور صفوان نے مسلمانوں کا رستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ اس کا مقابلہ خالد سے تھا جو تجربہ کار جنگجو ہے اور اس کیساتھ آدمی بھی زیادہ تھے۔‘‘ ’’میں جانتی ہوں ۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ میں پہلے سن چکی ہوں میرے اجنبی بھائی ۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے؟ہ زندہ تو ہے ؟‘‘’’وہ مجھے بتا گیا تھا کہ یمن جا رہا ہے ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’وہ کہہ گیا ہے کہ تجھے وہاں بلا لے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس کے پاس گیا ہے ۔تجھے یہی بتانے آیا تھا۔وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘’’اسے یہاں آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ وہ آ گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘’’تم تیار رہنا ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’اس کا پیغام آئے گا تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچا دوں گا۔تم اس کے پاس پہنچ جاؤ گی تو وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر حبشہ کو چلا جائے گا۔‘‘اجنبی اسے اپنی بستی کا اور اپنانام بتا کر چلا گیا۔
دوروز بعد عکرمہ کی بیوی بنو بکر کی بستی میں گئی اور اس آدمی سے ملی جس نے اسے عکرمہ کا پیغام دیا تھا ۔’’کیا تو عکرمہ کے پاس جانے کو آئی ہے؟‘‘عکرمہ کے دوست نے پوچھا۔’’میں اسے واپس لانے کیلئے جا رہی ہوں۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’کیا تو نہیں جانتی کہ وہ آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا؟‘‘’’اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور رسول اﷲﷺ نے میری فریاد پر میرے شوہر کو معاف کردیا ہے ۔‘‘’’کیا تو نے محمد)ﷺ( کواﷲ کا رسول مان لیا ہے؟‘‘’’مان لیا ہے۔‘‘’’محمد)ﷺ( نے تمہارے ساتھ سودا کیا ہو گا۔‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا ۔’’اس نے تمہارے آگے یہ شرط رکھی ہو گی کہ تم اور عکرمہ اسلام قبول کرلو تو ……‘‘’’نہیں!‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’محمدﷺ نے ،جو اﷲ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ ہیں، میرے ساتھ ایسا کوئی سودا نہیں کیااور محمدﷺ ان میں سے نہیں جو سودا کرکے اپنی بات منوایا کرتے ہیں۔ میں وہاں اپنے شوہر کی جان بخشی کی فریاد لے کر گئی تھی۔ یہ وہی محمدﷺ ہیں جنہیں میں بڑی اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب میں نے آپﷺ کو دیکھا تو میں نے دل سے کہا کہ یہ وہ محمدﷺ نہیں جو کبھی ہم میں سے تھے۔ یہ محمدﷺ جن کے پاس میں اب فریاد لے کر گئی۔ آپﷺ کی آنکھوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر آئی جو کسی اور انسان میں نہیں ہوتی۔مجھے ڈر تھا کہ محمدﷺ جواﷲ کے رسول ہیں کہیں گے کہ یہ عکرمہ کی بیوی ہے، اسے یرغمال بنا کررکھو۔تاکہ عکرمہ آجائے اور اسے قتل کر دیا جائے ۔لیکن آپﷺ نے مجھے ایک مجبور عورت جان کر عزت سے بٹھایا ۔میں نے فریاد کی کہ فتح آپ کی ہے،میرے بچوں کو یتیم نہ کریں ،میرے شوہر کی بد عہدی کی سزا مجھے اور میرے بچوں کو نہ دیں ۔آپﷺ نے کہا میں نے عکرمہ کو معاف کیا اور معلوم نہیں وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے کہلوایاکہ میں نے تسلیم کیا کہ محمدﷺ اﷲکا رسول ہے۔اب میں اس خدا کو مانتی ہوں جس نے محمدﷺ کو رسالت دی ہے۔‘‘’’اور تو مسلمان ہو گئی؟‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا۔
’’ہاں!‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں مسلمان ہو گئی، مجھے اس کے پاس لے چل میرے شوہر کے دوست۔میں اسے واپس لاؤں گی۔‘‘’’میں دوستی کا حق ادا کروں گا!‘‘ عکرمہ کے دوست نے کہا۔’’چل میں تیرے ساتھ یمن چلتاہوں ۔‘‘
کافی دنوں بعد عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا۔ اپنے گھر جانے کے بجائے حضورﷺ کے پاس گیا اور اس نے اپنے کیے کی معافی مانگ کر اسلام قبول کر لیا۔اسی روزصفوان بھی واپس آ گیا، وہ بھاگ کر جدہ چلا گیا تھا ۔ایک دوست اس کے پیچھے گیا اور اسے کہا کہ وہ سالاری رتبے کا جنگجو ہے اور اس کی قدر رسولِ کریمﷺ ہی جان سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی کہاگیا کہ قبیلہ قریش ختم ہو چکا ہے۔ صفوان تلوار کا دھنی اور نام ور سالار تھا وہ اپنے دوست کے ساتھ مکہ آ گیا اور اس نے رسول ِ کریمﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ابو سفیانؓ کی بیوی ہند ایسی عورت تھی جس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اسلام قبول کرلے گی ۔رسولِ کریمﷺ نے اس کے قتل کا حکم دے رکھا تھااور وہ روپوش تھی۔ ابو سفیانؓ اسلام قبول کر چکے تھے۔ ہند کو جب پتا چلا کہ عکرمہؓ اور صفوانؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ سامنے آگئی ،یہ جانتے ہوئے کہ اسے قتل کر دیاجائے گا۔ وہ رسولِ اکرمﷺ کے حضور جا پہنچی۔ آپﷺ نے اسے معاف کر دیا اور وہ مسلمان ہو گئی۔مکہ کے اردگرد‘ دور اور نزدیک کچھ قبائل تھے ۔ان میں بعض بت پرست تھے اور بعض توہمات کو عقیدہ بنائے ہوئے تھے ۔رسولِ کریمﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجے کہ وہ اﷲکا سچا دین قبول کرلیں ۔پیغام لے جانے والے فوجی تھے لیکن آپﷺ نے حکم دیا تھاکہ کسی پر تشدد نہ کیا جائے اور جنگی کارروائی سے گریزکیاجائے۔مکہکے جنوب میں تہامہ کا علاقہ ہے جہاں جنگجو قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ان کے متعلق خدشہ تھا کہ لڑنے پر اتر آئیں گے ۔اس لیے اس علاقے میں فوج کا ایک دستہ بھیجا گیا اور اس کی کمان خالدؓ کو دی گئی۔ تمام کا تمام دستہ گھڑ سوار تھا۔ اس میں بنو سلیم کے آدمی بھی تھے مدینہ کے بھی۔خالدؓ کو مکہ سے تقریباً پچاس میل دور ململیم کے مقام تک جانا تھا۔ خالدؓ اپنے سوار دستے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ان کی منزل پچاس میل دور تھی ۔بمشکل پندر ہ میل دور گئے ہوں گے کہ ایک مشہور جنگجو قبیلے بنو جزیمہ کے آدمیوں نے خالدؓ کے دستے کا راستہ روک لیا۔خالدؓنے اپنے دستے کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔بنو جزیمہ باقائدہ لڑائی کیلئے نکل آئے۔’’ہم لڑنے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓنے اعلان کیا۔’’ہم دعوت دینے آئے ہیں کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘’’ہم اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے جواب آیا۔’’ہم نمازیں پڑھتے ہیں ۔‘‘’’ہم دھوکا کھانے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓنے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہو چکے ہو تو تلواریں اوربرچھیاں پھینک دو۔‘‘
خبردار بنو جزیمہ!‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے کسی نے للکار کر کہا۔’’اسے میں جانتا ہوں‘ یہ مکہ کے الولید کابیٹا خالد ہے ۔اس پر اعتبار نہ کرنا۔ہتھیار ڈال دو گے تو یہ ہم سب کو قتل کرا دے گا ۔ہتھیار نہ ڈالنا۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھے رسول اﷲﷺ کا حکم نہ ملا ہوتا کہ جنگ نہ کرنا تومیں دیکھتا کہ تم ہتھیار ڈالتے ہو یا نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم دوست بن کر آئے ہیں ۔ہم تم پر اﷲکادین زبردستی ٹھونسنے نہیں آئے۔ہمیں دوست سمجھو اور ہمارے ساتھ آجاؤ۔‘‘’’اہلِ قریش کی کیا خبر ہے ؟‘‘بنو جزیمہ کی طرف سے آواز آئی۔’’مکہ چل کر دیکھو ۔‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان، عکرمہ اور صفوان اسلام قبول کر چکے ہیں ۔‘‘بنو جزیمہ نے ہتھیار ڈال دیئے ۔خالدؓ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھے اور بنو جزیمہ کے سردار سے گلے ملے ۔پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔مسلمانوں کو مکہ ایک مرکز کی حیثیت سے مل گیا ۔یہ سورج کی مانند تھا ۔جس کی کرنیں دور دور تک پھیلنے لگیں لیکن اسلام کی دشمن قوتیں یکجا ہو رہی تھیں۔ طائف ایک مقام ہے جو مکہ معظمہ سے چند میل دور ہے۔ جنوری ۶۳۰ء)شوال ۸ ہجری(کی ایک رات وہاں جشن کا سماں تھا۔فضاء شراب کی بو سے بوجھل اور رات مخمور تھی۔رقص کے لیے طائف کے اردگرد کے علاقے کی چنی ہوئی ناچنے والیاں آئی ہوئی تھیں ۔ان کے رقص اور حسن نے مہمانوں کو مدہوش کر دیا تھا۔مہمان مکہ کے شمال مشرقی علاقے کے مشہور جنگجو قبیلے ہوازن کے سرکردہ افراد تھے۔ان کے میزبان طائف اور گردونواح میں پھیلے ہوئے قبیلہ ثقیف کے سردار تھے۔جنہوں نے اپنے مہمانوں پر اپنی امارت اور فیاضی اور کشادہ ظرفی کا رعب جمانے کیلئے اتنی شاہانہ ضیافت اور اتنے شاندار جشن کا اہتمام کیا تھا۔دو لڑکیاں رقص کے کمال دکھا رہی تھیں کہ میزبان قبیلے کا سردار ’’مالک بن عوف ‘‘اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے تالی بجائی۔ساز خاموش ہو گئے ۔ناچنے والیں بت بن گئیں اور ان کی نظریں مالک بن عوف پر جم گئیں۔مہمانوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ایسے لگتا تھا جیسے رات کے گزرتے لمحوں کا قافلہ رک گیا ہو۔ہر کوئی مالک بن عوف کی طرف دیکھ رہا تھا۔مالک بن عوف کی عمر تیس سال تھی۔رقص اور مے نوشی کی محفلوں میں وہ عیاش شہزادہ تھا۔لیکن میدانِ جنگ میں وہ آگ کا بگولہ تھا۔وہ صرف تیغ زنی ،تیر اندازی اور گھوڑ سواری میں ہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ فنِ حرب و ضرب کا بھی ماہرتھا۔انہی اوصاف کی بدولت وہ قبیلے کا سالار تھا۔جنگ کے معاملے میں وہ انتہا پسند تھا۔یوں لگتا تھا جیسے ٹھنڈے دل سے سوچنا اسے آتا ہی نہیں۔اس کی جنگی چالیں اس کے دشمن کیلئے بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔قبیلۂ قریش میں جو حیثیت کبھی خالدؓ بن ولید کو حاصل تھی ویسا ہی دبدبہ مالک بن عوف کا اپنے قبیلے پر تھا۔
’’ہم نے بہت کھالیا ہے۔‘‘مالک بن عوف نے رقص رکوا کر میزبانوں اور مہمانوں سے خطاب کیا۔’’ہم شراب کے مٹکے خالی کر چکے ہیں ۔ہم تھرکتی ہوئی جوانیوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں ۔کیا ہمارے مہمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ضیافت اور جشن کی تقریب کیا ہے؟……میں نے تمہیں کوئی خوشی منانے کیلئے اکھٹا نہیں کیا۔اے اہلِ ہوازن! میں نے تمہاری غیرت کو جگانے کیلئے تمہیں اپنے ہاں بلایا ہے۔‘‘’’ہوازن کی غیرت سوئی کب تھی مالک بن عوف؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’بتا ہماری غیرت کو کس نے للکارا ہے؟‘‘’’مسلمانوںنے !‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔’’محمد)ﷺ( نے……کیا تم محمد)ﷺ( کونہیں جانتے؟کیا تم بھول گئے ہو اس محمد)ﷺ( کو جو اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے بھاگ کر یثرب )مدینہ(چلا گیا تھا؟‘‘’’جانتے ہیں!‘‘دو تین آوازیں اٹھیں۔’’اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے۔‘‘’’ہم اسے نبی نہیں مانتے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’کوئی نبی ہوتا تو ہم میں سے ہوتا۔جو اہلِ ثقیف ہیں۔ہوازن کے قبیلے سے ہوتا۔‘‘’’وہ نبی ہے یا نہیں۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس مکہ سے محمد )ﷺ(بھاگا تھا۔اس مکہ کا اب وہ حاکم ہے۔مکہ میں اس کاحکم چلتا ہے اور اس کی جنگی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔قبیلۂ قریش اس کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے اور ا سکے مذہب کو قبول کرتا چلا جا رہا ہے۔ابو سفیان ،عکرمہ اور صفوان جیسے جابر جنگجو محمد)ﷺ( کا مذہب قبول کر چکے ہیں۔خالدؓ بن ولید نے پہلے ہی یہ نیا مذہب قبول کرلیا تھا……مسلمانوں نے مکہ میں تمام بت توڑ ڈالے ہیں۔‘‘’’اہلِ قریش کو اپنی غیرت اور اپنے مذہب کا پاس ہوتا تو وہ اپنی تلواریں اپنے پیٹوں میں گھونپ لیتے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’اب ستاروں سے دھرا یہ آسمان دیکھے گا کہ ہوازن اور ثقیف کو اپنی غیرت کا کتنا پاس ہے۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی محمد )ﷺ(کو قتل کر دے؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا ۔’’اگرتو یہی کہنا چاہتا ہے تو یہ کام میرے سپرد کر۔‘‘’’اب محمد)ﷺ( کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’اسے قتل کر دو گے تو اس کے پیروکار اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اب وہ ایک آدمی کے قتل سے وہ اس راستے سے نہیں ہٹیں گے جس پر انہیں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘
’کہتے ہیں محمد)ﷺ( کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے۔‘‘ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’ وہ جس پر نگاہ ڈالتا ہے وہ اس کا مطیع ہو جاتا ہے۔‘‘’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں کوئی جادو نہیں چل سکتا۔‘‘ہوازن قبیلے کے ایک اور سردار نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔’’مالک…… آگے بول ……تو کیا کہتا ہے ؟ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ ’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے محمد )ﷺ(کے اسلام کو نہ روکا تو یہ سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا ہم سب کو بہا لے جائے گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’نہ ہوازن رہیں گے نہ ثقیف کا وجود ہو گا۔قبیلہ قریش کو محکوم بنانے والوں کو ہم مکہ کے اندر ہی ختم کریں گے۔کیا تم محکوم بن جانے کا مطلب سمجھتے ہو ؟‘‘مالک بن عوف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا۔’’اگر نہیں سمجھتے تو میں تمہیں بتاتا ہوں ۔‘‘اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔مالک بن عوف کے پیچھے مہمانوں میں ایک معمر سفید ریش بیٹھا تھا۔ اس کارنگ دوسروں کی نسبت صاف اور سفیدی مائل تھا۔وہ ضعیف اتنا تھا کہ اس کاسر ہلتا تھا اورکمر میں ہلکا سا خم تھا۔اسکے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصاتھا۔کندھوں سے ٹخنوں تک چغہ بتاتا تھا کہ وہ کوئی عالم یا مذہبی پیشوا ہے۔مالک بن عوف کے اشارے پر وہ اٹھا اور مالک کے پاس آ گیا۔’’تم پر اس کی رحمت ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’اور وہ دیوتا تمہارے بچوں کے محافظ ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو۔تم محکومی اور غلامی کا مطلب نہیں سمجھتے تو مجھ سے پوچھو۔میری چار جوان بچیاں مسلمانوں کی لونڈیاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے مسلمانوں کے غلام ہیں۔وہ تیغ زن اور شہ سوا رتھے۔لیکن اب انہیں تلوار ہاتھ میں لینے کی اور گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں،ہمیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے……کیا تمہیں یاد نہیں کہ قریش نے مدینہ کا محاصرہ کیا تھاتو مسلمانوں نے اردگرد خندق کھودلی تھی۔قریش اس خندق کو پھلانگ نہیں سکے تھے ،پھر اس قدر تندوتیز طوفان آیا کہ قریش جو پہلے ہی بددل ہو چکے تھے۔بکھر گئے اور مکہ کو واپس چلے گئے تھے۔جب مسلمانوں کے سر سے خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے ان یہودیوں پر ہلہ بول دیا جو ان کے ساتھ مدینہ میں امن سے رہتے تھے ۔ان یہودیوں کو انہوں نے قتل کر دیا اور ان کی عورتوں کو اور ان کے بچوں کو آپس میں بانٹ کر انہیں لونڈیاں اور غلام بنالیا۔‘‘’’اے بزرگ!‘‘قبیلہ ثقیف کے ایک سرکردہ آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تو یہودی ہے تو کیا ہم نے غلط سنا تھا کہ تیرے قبیلے نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا؟‘‘
’’تم نے جو سنا درست سنا تھا۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’ہمارا دھوکا کامیاب نہیں ہو اتھا۔ہم مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر اتارنا چاہتے تھے لیکن قریش پیٹھ دِکھا گئے۔مسلمانوں کو دھوکا دے کر کمزور کرناہمارا فرض تھا لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ہمیں کمزور کر دیا۔‘‘’’تو جو بنی اسرائیل سے ہے…… کیا ہمیں اُکسانے آیا ہے کہ ہم مسلمانوں سے تیرے قبیلے کے خون کا انتقام لیں؟‘‘ثقیف کے قبیلے ایک سردار نے کہا۔ایک اور ضعیف العمر شخص اُٹھ کھڑاہوا ۔اس کا نام’’ درید بن الصّمہ‘‘ تھا۔اس کا نام تاریخ میں تو ملتا ہے لیکن یہ پتا نہیں ملتا کہ وہ قبیلہ ہوازن سے تھا یا قبیلہ ثقیف سے۔’’خاموش رہو۔‘‘درید بن الصّمہ نے گرج کر کہا ۔’’ہم بنی اسرائیل کے خون کا انتقام نہیں لیں گے۔کیا تم ابھی تک شک میں ہو؟کیا تم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا خون اپنی تلواروں کو نہ پلایا اور ان کے زخمیوں کو گھوڑوں تلے نہ روندا ،تو وہ ہمیں بھی قتل کرکے تمہاری بیٹیوں کو،تمہاری بہنوں کو اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں اور ہمارے بچوں کواپنا غلام بنالیں گے؟‘‘’’اس سے پہلے کے ان کے گھوڑے طائف کی گلیوں میں ہنہنائیں ،کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہمارے گھوڑے ان کی لاشوں کو مکہ کی گلیوں میں کچلتے پھریں۔‘‘مالک بن عوف نے جوش سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’بنی اسرائیل کا یہ بزرگ ہماری پناہ میں آیاہے۔اس نے اپنے قبیلے کا جوانجام بتایا ہے میں تمہیں اس کا انجام سے بچانا چاہتاہوں ……اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد )ﷺ(اور اسکے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں ،ختم کرکے اپنی عورتوں کو اپنے منہ دکھائیں گے۔‘‘اس زمانے میں جب اسلام کی کرنیں مکہ سے پھیل رہی تھیں،عرب میں بت پرستی عام تھی۔وہ خدا کو بھی مانتے تھے لیکن خدا تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ بتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے
۔انکاعقیدہ تھا کہ بتوں کو راضی کیے بغیر خدا کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔بتوں کی خوشنودی کیلئے وہ کچھ رسمیں ادا کرتے تھے۔طائف کے علاقے میں جس بت کوپوجا جاتا تھا ،اس کا نام لات تھا جو انسانی یا حیوانی شکل کا نہیں تھا۔وہ بہت بڑا پتھر تھا جسے چٹان کہا جا سکتاہے۔یہ چٹا ن باقاعدہ مربع شکل کی تھی۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ مربع شکل کا قدری طور پر بنا ہوا چبوترا تھا ،جس پر شاید کسی زمانے میں کوئی بت رکھا گیا ہو لیکن طلوعِ اسلام کے دور میں یہ صرف چبوترہ تھا اور اردگرد کے قبائل اسی کو پوجتے تھے۔

جاری ہے

صبر اور برداشت ‏ ‏ ‎

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک مزے دار  ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔ ’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘ یہ کہہ کہ ...