Saturday, 12 December 2020

صبر اور برداشت ‏ ‏ ‎

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک مزے دار  ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔


’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘
یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔
چند لمحوں کے لیے کلا س میں خاموشی چھاگئی ،ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بے تابی سے دیکھ رہا تھااور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے لیے خود کو روکنا مشکل ہورہا تھا۔ دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا۔پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جب کہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر رہے تھے۔استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اور پڑھانا شروع کردیا۔

اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا۔
کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔ کافی جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی میں کامیابی کے کئی زینے طے کر چکے ہیں اور ان کا شمار کامیاب افراد میں ہوتا ہے۔ پروفیسر والٹر نے اپنی کلاس کے باقی طلبہ کا بھی جائزہ لیا،معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ایک عام سی زندگی گزار رہی تھی، جب کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے، جنھیں سخت معاشی اور معاشرتی حالات کا سامنا تھا۔
 
اس تمام تر کاوش اور تحقیق کا نتیجہ پروفیسر والٹر نے ایک جملے میں نکالا اور وہ یہ تھا۔
’’جو انسان دس منٹ تک صبر نہیں کرسکتا، وہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘
 
اس تحقیق کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑ گیا، کیوں کہ پروفیسر والٹر نے بچوں کو جو ٹافی دی تھی، اس کا نام ’’مارش میلو‘‘تھا. یہ فوم کی طرح نرم تھی۔
اس تھیور ی کے مطابق دنیا کے کامیاب ترین افراد میں اور بہت ساری خوبیوں کے ایک ساتھ ایک خوبی ’’صبر‘‘ کی بھی پائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ خوبی انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے، جس کی بدولت انسان سخت حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا اور یوں وہ ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتا ہے۔

Thursday, 10 December 2020

ﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮﻥ؟؟

6 ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺳﺮ !... 
ﺍﯾﮏ ﮐﭗ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﺎ؟
ﻣﯿﻨﺠﺮ!
ﮨﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ،
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ، ﺩﮮ ﺩﻭ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﭘﮑﻨﮏ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺗﮭﯽ، ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ، ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺭﻭﮐﺎ ﮔﯿﺎ، ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﻮ ﺷﺎﻧﺖ ﮐﯿﺎ ...!
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻮﻻ .. "
ﺑﯿﭩﯽ !... 
#ﮨﻢ_ﺑﭽﮯ_ﮐﮯ_ﺩﻭﺩﮪ_ﮐﮯ_ﭘﯿﺴﮯ_ﻧﮩﯿﮟ_ﻟﯿﺘﮯ ...

ﺍﮔﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﮯ لئے ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺟﺎﺅ، ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ!
ﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮﻥ؟ ...
ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﻭﺍﻻ ﯾﺎ ﭨﻮﭨﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻭﺍﻻ ؟


_ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ لئے
_ﭘﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺖ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ

_ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭘﯿﺴﮧ ﮐﻤﺎ ﮐﺮ ؟؟
_ﻧﮧ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺐ ﮨﮯ ، ﻧﺎ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ..

Saturday, 10 October 2020

Some Words That Can't be Used But, ‏She can. (اِیک عورت کی فریاد ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت)

میرا نام “ش “ ہے ۔میں لاہور کے علاقہ شاہدرہ کی رہائشی ہوں۔ میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہویٔ کیونکہ ہمارے خاندان کا رسم ہے کہ خاندان سے باہر کرنا رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ 

عمر کے 35 ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے  لیکن مجال ہے کہ میرے والدین نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔
میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح، لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہوں۔
 میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔
یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کےساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم۔
کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا۔ میرے درد کو  مسجد  کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔۔۔۔

اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن! رات کے پچھلے جب ابا حضور اماں کے سینے پر ہاتھ رکھ سورہے ہوتے ہیں بھائی بھابی اپنے کمرے میں انجوائے کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں جانتی ہوں۔

اے حاکمِ وقت!  تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفھوم یہ تھا۔
(اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے۔ 

اے حاکمِ وقت، 
اے میرے ابا حضور،
 اے میرے ملک کے مفتی اعظم،
 اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب،
اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اہنا لہو تلاش کروں ؟
کون میرے درد کو سمجھے گا ؟ 
میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا۔

اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا۔ 
اے لوگو مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند۔۔
اللہ پاک نوالے بھی منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟
یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئ اوروں کےلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔اللّٰہ پاک بچاٸے۔۔۔۔۔

تو یہ ہے ہمارے معاشرے کے فریاد، جو جہالت کے وجہ سے ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔
اے ہمارے رب! ھمیں ان جہالت سے دور فرما،  
ہمیں عمل کے توفیق عطا فرما ہماری بہنووں کی خقوق پر۔ 

Friday, 2 October 2020

جس خاتون نے بھی یہ تحریر لکھی ہے کمال لکھا ہے۔اسے ضرور پڑھیں

وہ لکھتی ہے 
مجھے اچھا لگتا ہے مرد سے مقابلہ نہ کرنا اور اس سے ایک درجہ کمزور رہنا۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب کہیں باہر جاتے ہوئے وہ مجھ سے کہتا ہے "رکو! میں تمہیں لے جاتا ہوں یا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں"۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھ سے ایک قدم آگے چلتا ہے۔ غیر محفوظ اور خطرناک راستے پر اسکے پیچھے پیچھے اسکے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے اس نے میرے خیال سے قدرے ہموار راستے کا انتخاب کیا۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب گہرائی سے اوپر چڑھتے اور اونچائی سے ڈھلان کی طرف جاتے ہوئے وہ مڑ مڑ کر مجھے چڑھنے اور اترنے میں مدد دینے کے بار بار اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب کسی سفر پر جاتے اور واپس آتے ہوئے سامان کا سارا بوجھ وہ اپنے دونوں کاندھوں اور سر پر بنا درخواست کیے خود ہی بڑھ کر اٹھا لیتا ہے۔ اور اکثر وزنی چیزوں کو دوسری جگہ منتقل کرتے وقت اسکا یہ کہنا کہ "تم چھوڑ دو یہ میرا کام ہے"۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ میری وجہ سے شدید موسم میں سواری کا انتظار کرنے کے لیے نسبتاً سایہ دار اور محفوظ مقام کا انتخاب کرتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے ضرورت کی ہر چیز گھر پر ہی مہیا کر دیتا ہے تاکہ مجھے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ باہر جانے کی دقت نہ اٹھانی پڑے اور لوگوں کے نامناسب رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
    مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب رات کی خنکی میں میرے ساتھ آسمان پر تارے گنتے ہوئے وہ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کے ڈر سے اپنا کوٹ اتار کر میرے شانوں پر ڈال دیتا ہے۔
   مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے میرے سارے غم آنسوؤں میں بہانے کے لیے اپنا مظبوط کاندھا پیش کرتا ہے اور ہر قدم پر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ بدترین حالات میں مجھے اپنی متاعِ حیات مان کر تحفظ دینے کے لیے میرے آگے ڈھال کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے "ڈرو مت میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا"۔
   مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے غیر نظروں سے محفوظ رہنے کے لئے نصیحت کرتا ہے اور اپنا حق جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ "تم صرف میری ہو"۔
لیکن افسوس ہم سے اکثر لڑکیاں ان تمام خوشگوار احساسات کو محض مرد سے برابری کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے کھو دیتی ہیں۔
   شاید سفید گھوڑے پر سوار شہزادوں نے آنا اسی لئے چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہم نے خود کو مصنوعات کی طرح انتخاب کے لیے بازاروں میں پیش کر دیا ہے۔
پھر۔۔۔۔۔۔۔
''جب مرد یہ مان لیتا ہے کہ عورت اس سے کم نہیں تب وہ اسکی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا چھوڑ دیتا ہے۔ تب ایسے خوبصورت لمحات ایک ایک کر کے زندگی سے نفی ہوتے چلے جاتے ہیں، اور پھر زندگی بے رنگ اور بدمزہ ہو کر اپنا توازن کھو دیتی ہ''*.
مقابلہ بازی کی اس دوڑ سے نکل کر اپنی زندگی کے ایسے لطیف لمحات کا اثاثہ محفوظ کر لیجیے۔۔🤔
🌹🌹🌹✍🏿🌹🌹

Thursday, 24 September 2020

سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. 

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. 

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. 

پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا. 

نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. 

وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. 

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

عارف انیس

(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

Monday, 21 September 2020

لاہور: ایک رات میں مسجد کی تعمیر کا دلچسپ واقعہ

لاہور کے شاہ عالم چوک میں ایک ایسی مسجد واقع ہے جسے ایک رات میں تعمیر کیا گیا تھا- اس مسجد کی اتنے قلیل وقت میں تعمیر کی وجہ اور واقعہ بھی انتہائی دلچسپ اور ایمان افروز ہے- 

تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے دور میں اس مقام سے ایک مسافر سے گزر ہوا اور اس نے یہاں نماز ادا کی جبکہ یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثریت کا حامل تھا- ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی- 

معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور وہاں ہندوؤں کا مؤقف تھا کہ اس جگہ پر مندر تعمیر ہوگا جبکہ مسلمان یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے- اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل نے انہیں تجویز دی کہ اگر وہ یہاں صبح فجر سے پہلے مسجد تعمیر کرلیتے ہیں تو کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہوجائے گا- مسلمانوں کی جانب سے اس کیس کی پیروی قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کر رہے تھے-                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        
یہ سننا تھا کہ مسلمانوں نے گاماں پہلوان کی قیادت میں راتوں رات مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور جس مسلمان کے پاس جو سامان تھا اس نے وہ مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کردیا۔ یہاں تک کہ خواتین رات بھر اپنے سروں پر پانی رکھ کر لاتی رہیں تاکہ مسجد کی تعمیر ممکن ہوسکے- اور راتوں رات یہ مسجد تعمیر کردی گئی فجر کی نماز سے پہلے 

دوسری جانب مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد عدالت نے بھی مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ 

یہ مسجد 1917 میں تعمیر کی گئی اور اس کا نام “مسجد شب بھر“ رکھا گیا- یہ مسجد 3 مرلے کے رقبے پر تعمیر ہے-

علامہ اقبال کو جب تیسرے روز اس مسجد کی تعمیر کا پتہ چلا تو آپ یہاں تشریف لائے اور بہت خوش ہوئے اور یہی وہ موقع تھا جب انہوں نے یہ مشہور شعر کہا :-

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا !!

غازی عامر عبدالرحمن چیمہ شہید ‏

کہا جاتا ہے غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں پر تھا کیونکہ لوگ اتنے بے تاب تھے اس جنازہ کو کندھا دینے کے لئے
اور قافلے در قافلے اس جنازہ میں شرکت کے لئے آرہے تھے حالانکہ ان کا اس میت سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا
آخر یہ مسلمان کون تھا 
کیا آپ میں سے کوئی جانتا ہے

غازی عامر عبدالرحمن چیمہ رحمۃ اللہ علیہ کون تھے ؟
عامر چیمہ 4دسمبر 1977 کی صبح اپنے ننھیال حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام عامر جبکہ والد نے عبد الرحمٰن تجویزکیا۔ چنانچہ دونوں ناموں کو ملا کرعامرعبدالرحمٰن رکھ دیا گیا۔ لیکن مختصر نام عامر مشہور ہوا۔
عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ان کی تین بہنیں ہیں ۔
آپ نے 1993ء میں جامع ہائی اسکول ڈھوک کشمیریاں راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ 1996 ء میں ایف جی سر سید کالج مال روڈ راوالپنڈی سے ایف ایس سی کی۔ نیشنل کالج آف انجینرٔنگ فیصل آباد سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینرٔنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 
کچھ عرصہ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں لیکچرار رہے۔رائے ونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل اور الکریم ٹیکسٹائل ملز کراچی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 
نومبر 2004ء میں جرمین روانہ ہوئے اور جرمنی کے شہر مونس گلاڈباخ میں واقع اوخشو لے فیڈر یا ئن یوینورسٹی میں ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوزنگ منیجمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ تین سمسٹرز مکمل کر لیے تھے۔ اب ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھااور جولائی 2006 ء میں تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹنا تھا۔
مذہبی اور تاریخی کتب مطالعہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب وہ یورپ کے توبہ شکن اور کافر اداماحول میں گئے تو تب بھی اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اور نہ ہی اپنی کردار پے کوئی حرف آنے دیا۔
30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنز پوسٹن نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں 12 نہایت توہین آمیز اور نازیبا کارٹون شائع کیے۔ پھر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت جنوری 2006ء میں 22 ممالک کے 75 اخبارات و رسائل نے ان کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں ۔ہو ہی نہیں سکتا ،یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے ،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے ۔جسے غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔
عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی نوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔
ان کارٹونوں کی اشاعت سے مشتعل ہو کر جرمنی میں مقیم اس پاکستانی طالب علم عامر عبدالرحمن چیمہ نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کیا۔

اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین نے انہیں سخت بے قرار اور بے چین کر دیا تھا ۔ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی ۔وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے ۔عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپا یا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ۔اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا ۔عامر چیمہ نے مزید وار کر نے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں وہ نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہو گیا۔
غازی عامر عبدالرحمن چیمہ گرفتار ہوئے۔ جرمن پولیس اور مختلف حکومتی ایجنسیوں نے برلن جیل میں 44 دن تک عامر چیمہ کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر تشدد کیا۔
ایک موقع پر تفتیشی افسر نے عامر چیمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے کہ وہ ذہنی مریض ہے، دماغی طور پر تندرست نہیں ہے اور اس نے یہ قدم محض جذبات میں آ کر اٹھایا ہے۔ مزید براں یہ کہ اس فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے کیے پر بے حد شرمندہ اور نادم ہوں۔
شہید غازی عامر چیمہ نے نہایت تحمل سے تفتیشی آفیسر کی تمام باتیں سنیں اور پھر اچانک شیر کی طرح دھاڑا اور اس آفیسر کے منہ پر تھوک دیا اور روتے ہوئے کہا
’’میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ مجھے اپنے فعل پر بے حد فخر ہے۔ یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ایک تو کیا، ہزاروں جانیں بھی قربان۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اگر کسی بدبخت نے میرے آقا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی توہین کی تو میں اسے بھی کیفر کردار تک پہنچائوں گا۔ بحیثیت مسلمان یہ میرا فرض ہے اور میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتا رہوں گا۔‘‘
غازی عامر چیمہ کی اس بے باک اور بے خوف جسارت کے بعد جیل حکام آپے سے باہر ہو گئے اور انھوں نے عامر چیمہ پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی، اس کے پیچھے سے ہاتھ باندھے گئے۔ پلاس کے ساتھ اس کے ناخن کھینچے گئے۔ پائوں کے تلوئوں پر بید مارے گئے، گرم استری سے اس کا جسم داغا گیا، جسم کے نازک حصوں پر بے تحاشا ٹھڈے مارے گئے، ڈرل مشین کے ذریعے اس کے گھٹنوں میں سوراخ کیے گئے۔
غازی عامر چیمہ نہایت اذیت کی حالت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتا رہا۔ اسی دوران میں اس کی سانسیں اکھڑ گئیں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر ان بدبختوں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا 
صلہ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ

غازی عامر چیمہ کی شہادت 3 مئی 2006ء
کو ہوئی۔ شہید کا جسد خاکی 10 دن کی تاخیر کے بعد 13 مئی 2006ء کو صبح 9 بجے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے لاہور لایا گیا۔ بعدازاں شہید کے آبائی گائوں ساروکی (وزیرآباد) میں تدفین ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق جنازے میں 5 لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے۔

آفرین صد آفرین ،عامر بھائی ! آپ بازی لے گئے ،اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی کو قبول فرمائے ،آپ پر رحمتیں نازل کرے اور آپ کی قبر کو ہمیشہ نور سے آباد رکھے۔
 آمین ثم آمین ...

صبر اور برداشت ‏ ‏ ‎

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک مزے دار  ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔ ’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘ یہ کہہ کہ ...